کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 85
ذرائع ابلاغ کی پالیسیوں اور رویے سےہمارے معاشرے میں مغربی رجحانات کی حوصلہ افزائی ہورہی ہے۔ اور اسلام کاتصور حیاء وعفت ختم ہورہا ہے۔ ﴿اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَي النساء ﴾ [النساء:34] (مرد عورتوں پر حاکم ہیں ) کے برعکس صورت حال رونما ہورہی ہے اور قرآن کاحکم ﴿وَقَرْنَ فِيْ بُيُوْتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاہِلِيَّۃِ الْاُوْلٰى﴾ [ الاحزاب :33] ’’اے ازواج مطہرات! اپنے گھروں میں ٹکی رہو اور پہلی جاہلیت کی طرح اپنی زینت کااظہار نہ کرو)زینت طاق نسیاں بنتا جارہا ہے۔ ‘‘ مغربی نظریۂ مساوات مرد وزن کے مطابق مسلمان عورت کامردوں کے دوش بدوش چلنے کی روش، جسے مادی ترقی اور ملکی خوش حالی کی ضمانت سمجھا جارہا ہے، معاشرے کے لیے سخت تباہ کن ہے۔ اس سے عائلی نظام ٹوٹ پھوٹ کاشکار، اسلام سےبیزاری اور مغربی تہذیب ومعاشرت کی برتری کاتصور عام ہورہا ہے، نیز اسلام کو ایک فرسودہ اور موجودہ دور میں ناقابل عمل دین سمجھا جارہا ہے۔ کیا ہمارے حکمران اورمالکان ومدیران جرائد یہی کچھ چاہتے ہیں۔ اگر یہی ان کامطلوب ومقصود ہے(اور ان کے طرز عمل کا لازمی ومنطقی نتیجہ یہی ہے) تو پھر پاکستان میں بسنے والےمسلمانوں کو سوچنا چاہیے کہ کیا وہ اس رو میں بہتےچلے جائیں گے یا اپنی نسل نو کو اس باغیانہ روش سے بچانے کی ہرممکن سعی کریں گے؟ ٭٭٭