کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 84
سرگرم خواتین کی کانفرنسوں، تقریروں اور مطالبات میں ایسی ہی چیزیں نمایاں ہیں جومغربی معاشرے کے امتیازات ہیں۔ ہر شعبۂ زندگی میں مردوزن کی مساوات اور ایک دوسرے کے دوش بدوش چلنے کاتصور خالص مغربی ہے، جس کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں مگر ان نام نہاد لیڈرانیوں کی زبان پر ہر وقت یہی نعرہ رہتا ہے۔ مغرب میں مرد کوطلاق دینے کا حق حاصل نہیں ہے۔ یہ لیڈرانیاں چاہتی ہیں کہ پاکستان کے مردوں سےبھی یہ حق جو اسلام نے انہیں دیا ہے، سلب کرلیاجائے بلکہ اس کی جگہ یہ حق عورتوں کوتفویض کردیا جائے۔ مغرب میں ایک سے زیادہ شادی ممنوع ہے، تاہم غیرقانونی داشتاؤں اور گرل فرینڈز کی عام اجازت ہے۔ پاکستانی لیڈرانیاں بھی یہاں یک زوجی(ایک ہی بیوی) کے قانون پر اصرار کرکے بے حیائی کا وہی دروازہ کھول رہی ہیں جس سے مغرب کالادین معاشرہ دوچار ہے۔ وعلی ھذا القیاس یہ لیڈرانیاں مغرب کی ہر بات پر ایمان بالغیب رکھتی ہیں اور اسلامی تہذیب وتمدن سے سخت بیزار ہیں اور مغرب پرستی اور اسلام بیزاری کا رجحان وہ بڑی تیزی سے پاکستان کی نئی نسل میں بھی منتقل کررہی ہیں۔
افسوس اور ستم ظریفی یہ ہے کہ ہمارے تمام وزراء، ارباب اختیار واقتدار، افسران اعلیٰ اور اخبارات جدید چلتے ہوئے نعروں سےمرعوب او ر شاید مغرب کی عشوہ طرازیوں سے مسحور ہیں۔ یہ بھی سب مغرب کے نقطۂ نظر ہی کو یہاں فروغ دے رہے ہیں۔ حکومت کی تمام پالیسیاں اسی فکر اور طرز عمل کی غماز ہیں اور اخبارات بھی ان نظریات کی بھرپور اشاعت کررہے ہیں۔
یہ صورت حال اسلامی نقطۂ نظر سے سخت خطرناک ہے۔ حکومت، اخبارات اور دیگر