کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 83
عدالتوں سے فوری انصاف حاصل کرسکیں۔
9۔ فحاشی، بے حیائی اور بے پردگی کاخاتمہ کیاجائے تاکہ عورتوں کی عصمت دری کے بڑھتے ہوئے رجحان پرقابو پایاجاسکے۔
10۔ فضائی میزبان ایئر ہوسٹس عورتوں کی بجائے مردوں کومقرر کیاجائے تاکہ اسلامی احکام کی بے حرمتی نہ ہو۔
11۔ بارات، ٹیلی ویژن اورکمرشل اشتہارات میں عورت کا استعمال ممنوع قرار دیا جائے کیونکہ اس میں اس کا استحصال بھی ہے اور اس کی بے حرمتی بھی۔
12۔ بیواؤں اور نادار عورتوں کی فلاح کے لیے زیادہ سے زیادہ امدادی مراکز اور ادارے قائم کیے جائیں تاکہ ایسی عورتیں آبرومندانہ طریقے سے اپنی حیات مستعار کے دن گزار سکیں۔
13۔ عورتوں کے لیے مردوں سے الگ نصاب تعلیم مرتب کیاجائے تاکہ وہ اپنے مقصد تخلیق اورفطری صلاحیتوں کے مطابق زیادہ بہتر طریقے سے ملک وقوم کی خدمت کرسکیں۔
یہ اور اس قسم کے اور بہت سے مسائل ہیں جو غوروفکر اور توجہ کےمستحق ہیں لیکن عورتوں کےنام پر تنظیمیں قائم کرنے اور ان کے بل بوتےپر اپنی لیڈری کی دکان چمکانے والی خواتین کومذکورہ مسائل سے، جوپاکستانی مسلمان عورتوں کے حقیقی مسائل ہیں، کوئی دلچسپی نہیں۔ انہیں دلچسپی ہےتو صرف ایسے مسائل سے کہ جن کے ذریعے سے پاکستان کا اسلامی معاشرہ، مغرب کے اخلاق باختہ معاشرے میں بدل جائے اور مغرب کی تمام اخلاقی برائیاں یہاں عام ہوجائیں، چنانچہ آپ دیکھ لیجئے کہ خواتین کے حقوق کے نام پر