کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 80
رکھتا۔ اس مطالبے میں قطعاً کوئی معقولیت اور افادیت نہیں ہے، یہ غیرمعقول بھی ہے اور قومی خزانے پر ایک ناروا بوجھ بھی اور سب سے بڑھ کر حکم قرآنی:
﴿وَقَرْنَ فِيْ بُيُوْتِكُنَّ ﴾ [ الاحزاب 33]
’’اور تم اپنے گھروں میں ٹک کر رہو۔ ‘‘
کے صریح خلاف بھی، اس لیے ہم دینی حلقوں اور دینی جماعتوں سے عرض کریں گے کہ وہ اس مسئلے میں معذرت خواہانہ انداز ترک کرکے زوردار انداز میں اس کے خلاف آواز اٹھائیں۔ اگر مرد عورتوں کے مسائل حل کرنے پرقادر نہیں ہیں تواسمبلیوں میں نمائندگی کے عنوان سے پہنچنے والی خواتین کیا تیرمارلیں گی؟
چنانچہ دیکھ لیجئے، مشرف کی بنائی ہوئی اسمبلیاں اپنی پانچ سالہ مدت پوری کر کے ختم ہوئیں۔ ا ن قومی وصوبائی اسمبلیوں کی پانچ سالہ کارکردگی ملاحظہ کرکے پورے یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ خواتین کو اسمبلیوں کی رونق بنانا سوائے الحاد اور مغرب زدگی کےکچھ نہیں ہے۔ ان مذکورہ پانچ سالوں میں نہ مردوں نے ملک وقوم کے لیے کچھ کیا اور نہ عورتوں نے۔ البتہ قومی خزانے سے ان ممبران نے تنخواہوں اور مراعات میں کروڑوں نہیں، اربوں روپے وصول کیے۔ فاناللّٰہ وانا الیہ راجعون
ضلعی حکومتوں کے نئے نظام میں عورتوں کی نمائندگی
اس تفصیل سے یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے ضلعی حکومتوں کا جونیانظام متعارف کرایاتھا، اس میں بھی عورتوں کی 33فیصد نمائندگی کا اہتمام اسلامی تعلیمات واقدار کے بالکل خلاف تھا۔ اتنی تعداد میں عورتوں کی نمائندگی تو