کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 79
میں شرکت عورتوں کے لیے شرعاََممنوع نہیں ہے۔ [1]
ٹھیک ہے لیکن سوال یہ ہے کہ مشاورت کے لیے اسمبلیوں کاممبر بننا یا بنانا کیوں ضروری ہے؟کیا اس کے بغیر حسب ضرورت خواتین سے مشورہ نہیں لیاجاسکتا؟ بلکہ ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ جوخواتین اسمبلیوں کی ممبر بنیں گی یا بنائی جائیں گی ان کی اکثریت اس قبیل سے ہوگی کہ وہ ممبران اسمبلی کے ذوق جمال اور نگاہ ہوس کی تسکین کا سامان تو شاید ضرور مہیا کردیں لیکن خواتین کے حقیقی مسائل ومشکلات سے وہ آگاہ ہوں گی نہ ان کے ناخن تدبیر سے ان کے حل کی راہیں کھلیں گی۔ اس کے برعکس اگر چند عورتوں کوممبر بنائے بغیر، ملک کی سمجھ دار، پڑھی لکھی گھریلو اور فکری وتعلیمی اداروں سے وابستہ خواتین سےمختلف سوال ناموں کی شکل میں رائے حاصل کی جائے تو زیادہ بہتر طریقے سے عورتوں سے مشاورت کا اہتمام ہوسکتا ہے۔ یہ خواتین کےممبر بننے یا بنانے کے بھاری بھرکم اخراجات (جو کروڑوں میں ہیں ) کے مقابلے میں ’’ہینگ لگے نہ پھٹکری، رنگ چوکھا آئے‘‘ کامصداق بھی ہوگا۔
جیسا کہ اکتوبر 2002ء کے انتخابات میں جس طرح بڑی تعداد میں عورتوں کو قومی وصوبائی اسمبلیوں میں نمائندگی دی گئی ہے، اس کے سالانہ اخراجات کاتخمینہ5کروڑ 64لارکھ روپے لگایاگیا ہے۔ [2]
بہرحال جس نقطۂ نظر سے بھی دیکھا جائے، اسمبلیوں میں خواتین کی نمائندگی کا مسئلہ ایک شوق فضول، سراسر اسراف اور مغرب زدگی کے شاخسانے سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں
[1] ماہنامہ ’الشریعۃ‘‘ گوجرانوالہ، دسمبر1993، ص:42
[2] رونامہ’’جنگ‘‘ لاہور۔ 28نومبر2002ء ص، 4اور 13