کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 78
کے مطابق مشرف حکومت میں عورتوں کومنتخب نمائندگان کے ووٹوں سے متناسب نمائندگی کی بنیاد پر بھی منتخب کیا گیا ہے، جس کے بعد قومی اسمبلی ہی میں خواتین کی تعداد75ہوگئی تھی اور صوبائی اسمبلیوں میں بھی صورت حال یہی تھی۔ جبکہ مزدوروں، ہاریوں، کاشت کاروں، بے روز گاروں، کاریگروں، ہنرمندوں، تعلیمی اداروں کے اساتذہ، ملازمت پیشہ افراد حتیٰ کہ متوسط خاندانوں کا بھی کوئی نمائندہ اسمبلیوں میں پہنچ سکا ہے یا آئندہ ان میں سے کسی کے پہنچنے کاتصور کیاجاسکتا ہے؟ اسی طرح اہل علم وفکر حضرات کاطبقہ ہے جس میں غیر سیاسی علماء، مختلف شعبہ ہائے زندگی کے ماہرین، اہل قلم اور دانشورحضرات اور دیگر بہت سے ممتاز طبقات ہیں لیکن اسمبلیوں میں وہ نمائندگی سے محروم چلے آرہےہیں اور آئندہ بھی ان کی محرومی کے ازالے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔
عورتوں سے زیادہ کیا ان طبقات کی نمائندگی ضروری نہیں ہے۔ اگر عورتوں کی نمائندگی کے لیے خاص سہولتوں کا اہتمام ضروری ہے تو مذکورہ طبقات کے لیے بھی ان سہولتوں کا اہتمام کرنے کی ضرورت ہے، ورنہ یہ ایک امتیازی سلوک ہوگا جس کی نفی یہ سیکولرحضرات بڑے شدومد سے کرتے ہیں حتی کہ یہ اللہ تعالیٰ کے قائم کردہ مرد وعورت کے درمیان بعض فطری امتیازات کو بھی ختم کرنے کے لیے بے قرار ہیں۔
خواتین کی نمائندگی کے جواز کے لیے ایک دلیل یہ دی جارہی ہے کہ خلافت راشدہ میں متعدد دفعہ عورتوں سے متعلقہ امور بلکہ اجتماعی معاملات میں بھی عورتوں سے رائے لی گئی...اس لیے اجتماعی معاملات کے حوالے سے قومی سطح پرمشاورت اوررہنمائی کے نظام