کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 76
ہمارے نزدیک ان میں سے کوئی رائے بھی صحیح نہیں ہے۔ ہر ایک میں کوئی نہ کوئی نقص ضرور پایاجاتاہے۔
اولاً: ان سب کی بنیاد مغربی تہذیب کے اس تصور پر ہے جس میں کسی بھی معاملے میں مرد اور عورت کے درمیان فرق کرنا جائز نہیں ہے۔ زندگی کے ہر شعبے میں عورت کو مرد کے دوش بدوش حصہ لینے کاحق حاصل ہےا ور اسے حصہ لینا چاہیے اور مغرب اپنے مخصوص استعماری مقاصد کے لیے اس نظریۂ مساوات مردوزن کو اسلامی ملکوں میں فروغ دے رہا ہے لیکن اسلام مغرب کے اس نظریے کو صحیح تسلیم نہیں کرتا۔ اسلام مرد اور عورت کو زندگی کے دوپہیے توضرور مانتا ہے کہ جن کے بغیر انسانی زندگی کی گاڑی رواں دواں نہیں رہ سکتی لیکن وہ دونوں کا دائرہ عمل ایک دوسرے سے مختلف تجویز کرتا ہے۔ اس کے نزدیک دونوں کی فطری صلاحیتیں بھی مختلف ہیں اور دونوں کامقصد تخلیق بھی ایک دوسرے سے جدا، اس لیے وہ دونوں کو الگ الگ دائرے میں رکھ کر اپنے اپنے مفوضہ فرائض ادا کرنے کی تاکید کرتا ہے۔ سیاست اور امور جہانبانی کاشعبہ بھی بعض اور شعبوں کی طرح ایک ایسا شعبہ ہے جسے اسلام نے صرف مرد ہی کے لیے خاص کیا ہے وہ عورت کےسیاست میں حصہ لینے کوقطعاً پسند نہیں کرتا جبکہ مذکورہ چاروں تجویزیں عورت کے سیاست میں حصہ لینے کے تصور پرمبنی ہیں۔
بنابریں یہ چاروں ہی تجویزیں اسلامی نقطۂ نظر سے غیرصحیح ہیں کیونکہ ان میں سے ہر تجویز میں اسلامی اصول وضوابط سے انحراف پایاجاتاہے، ان اصول وضوابط کوپامال کیے بغیر کوئی بھی تجویز بروئے کار نہیں آسکتی۔
ثانیاً: اسمبلیوں میں عورتوں کی نمائندگی کے لیے عورتوں کو اسمبلیوں کے لیے نامزد کرنا یا