کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 75
دورِحکومت میں اس معاملے میں پیپلز پارٹی کے ہم نواز ہونے کے باوجود، آئین میں مذکورہ ترمیم کے لیے تعاون نہیں کیا۔ 2۔ ایک مرتبہ میاں محمد نواز شریف نے ایک نئی تجویز پیش کی تھی کہ پورے ملک میں عورتوں کے لیے چالیس حلقے قائم کردیے جائیں اور ان حلقوں سے براہ راست عورتوں کے ووٹوں سے انہیں منتخب کیاجائے اوروہ عورتیں اسمبلیوں میں عورتوں کی نمائندگی کریں۔ 3۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ دنیا کے کسی ملک کے دستور میں عورتوں کے لیے الگ نشستیں نہیں ہیں، اس لیے پاکستان میں الگ نشستوں کی صورت اختیار نہ کی جائے بلکہ جس طرح دستور پاکستان میں عورتوں کو پہلے سے عام نشستوں پر انتخاب لڑنے کاحق حاصل ہے، وہی کافی ہے اور اس طریقے سے جتنی عورتیں منتخب ہوکراسمبلیوں میں پہنچ جائیں، اسی پر کفایت کی جائے۔ ایک موقع پر نواب زادہ نصراللہ خاں مرحوم نے بھی یہ تجویز پیش کی تھی۔ 4۔ ایک چوتھی رائے بعض دینی حلقوں کی طرف سے یہ آئی ہے کہ خواتین کا انتخاب تو عام انتخابات کے ذریعے سےہی بروئے کار لایاجائے لیکن اس کے لیے حسب ذیل باتوں کا اہتمام کیاجائے: ٭ اسمبلی کی رکنیت کے لیے عورت کی عمر کم از کم چالیس سال مقرر کردی جائے۔ ٭ اسمبلیوں میں عورتوں کے لیے متعین لباس اور الگ نشست گاہ کا اہتمام ہو۔ ٭ الیکشن رولز کے تحت ہر سیاسی پارٹی کو پابند کردیاجائے کہ وہ الیکشن کے لیے جاری کردہ ٹکٹوں کا۱۰؍ ۱ حصہ عورتوں کے لیے مخصوص کرے۔ [1]
[1] ماہنامہ’الشریعۃ‘گوجرانوالہ، دسمبر1993ء