کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 74
عورت اورسیاست
سیاست اور معاشرتی معاملات سوشل ورک میں عورتوں کاحصہ لینا بھی عورت کا اپنے دائرہ عمل سے تجاوز ہی کی ذیل میں آتا ہے۔ اسی لئے اسلامی نقطۂ نظر سے یہ میدان بھی صرف مردوں کےلیے خاص ہے، عورتوں کا اس میدان میں آنا اور سیاست اور معاشرتی معاملات میں مردوں کے دوش بدوش حصہ لینا ناپسندیدہ ہے لیکن اس کے باوجود ہمارے ملک میں کئی سالوں سے اسمبلیوں میں خواتین کی نمائندگی کا مسئلہ سیاسی، دینی اور علمی حلقوں میں زبربحث ہے۔ اس سلسلے میں اب تک مختلف آراء سامنے آچکی ہیں۔
1۔ ایک رائے تو وہ ہے جو 1973ء کے آئین میں عارضی طور پراختیار کی گئی تھی جو پاکستان کی مخصوص نظریاتی اورواقعاتی حالات کی مظہر بتلائی جاتی ہے، یعنی پاکستان میں عورت چونکہ براہ راست انتخابات میں حصہ لینے کی پوزیشن میں نہیں ہے، اس لیے ممبران اسمبلی اپنے ووٹوں سے کچھ عورتوں کاانتخاب کرلیں تاکہ اسمبلیوں میں عورتوں کی نمائندگی ہوسکے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت اس کے لیے آئینی ترمیم کی خواہش مند رہی تاکہ ایک تو ملک میں عورت کے بارے میں مغرب کاتصور عام ہوکیونکہ مغربیت کافروغ اس پارٹی کےخمیر اورضمیر میں شامل ہے۔ دوسرے، اسمبلیوں میں اس کی عدد قوت میں اضافہ ہو۔ ظاہر بات ہے کہ حکومت جن عورتوں کوبھی اسمبلیوں کی زینت بنانے کے لیے منتخب کرے گی، وہ حکومت کی ممنون احسان ہوں گی، اس لیے وہ ظالم اور بدعنوان حکومت کی تقویت کا باعث ہوں گی، یہی وجہ ہےکہ مسلم لیگ ن نے اپنے