کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 73
جو گھروں کا انتظام کرتی ہیں عظیم المرتبہ اوربلند سیرت خواتین ہیں جن سے گھروں میں آرام وسکون واطمینان قائم ہے۔ اس کے علاوہ براہ راست ذمہ داری سے خاندانوں میں الفت ویگانگت اور قوم کے محنت کش پیداواری طبقے(مردوں ) کے لیے زندگی کی راحت اور قوت مہیا ہوتی ہے اور وہ مرد احسان فراموش ہیں جو بیویوں کے اس عظیم کردار کی قدر نہیں کرتے اور قوم کی محسن ہیں وہ خواتین جو اس بارگراں کوبخوشی برداشت کرتی ہیں جوفطرت نے اور پھر اسلام نے ان پر یوں ڈالا کہ تدبیر منزل کو داخلی اورخارجی دوحصوں میں تقسیم کرکے تمدن کی گاڑی کورواں رکھنے میں انسانیت پراحسان کیا۔
مسئلہ یہاں ملازمت کابھی چھیڑا جاسکتا ہے جسے میں نے سابقہ بیانات میں ضروری وپسندیدہ اوربعض صوررتوں میں مجبوری قرار دیا ہے۔ لیکن یہ خانہ داری کی زندگی سے الگ مسئلہ ہے اور اس کے بہت پہلو ہیں لیکن اشارتاً یہ ضروری ہے کہ یہ بھی ایک نظام اور تنظیم کا طلب گار ہے جس کی بنیاد خانہ داری کی عقلی دلیلوں اوراخلاقی مصالح پررکھنی پڑے گی۔ ملازمت بے ضرورت اورمحض برائے ملازمت، آگے چل کر تعلیم یافتہ مردوں اور عورتوں کی بے روز گاری جیسے مسائل اورباہمی مقابلہ اوررقیبانہ مسابقت پیدا کرسکتی ہے۔
بہرحال اس وقت مجھے ثابت یہ کرنا تھا کہ ہماری قوم کانصف حصہ اس لائق صد احترام خاتون کے خیال کے برعکس جس نے نصف آبادی کوبیکار کہا تھا، بیکار نہیں۔ یہ پروپیگنڈہ اور افسانہ ہی افسانہ ہے۔ [1]
[1] ’’نوائے وقت ‘‘لاہور3نومبر1981ء