کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 72
شہری خواتین اپنی دیہاتی بہنوں کوتعلیم سے عاری کہہ کر انہیں اپنے سے کم تر سمجھتی ہیں۔ اس میں شبہ نہیں کہ تعلیم یافتہ ہونا، تعلیم یافتہ نہ ہونے سے بہتر اور برتر ہے اور ہم تعلیم نسواں کوفرض عین قرار دےچکے ہیں لیکن ہم اس دلیل کو فی الحال ماننے کے لیے تیار نہیں کہ تعلیم یافتہ خواتین بہتر خانہ دار ثابت ہوتی ہیں اور ہر کوئی جانتا ہے کہ براہ راست ذمے داری کابوجھ غیرتعلیم یافتہ خواتین صدیوں سے اٹھارہی ہیں اور ان کے نتائج میں یہی ایک دلیل کافی ہے کہ انہی عظیم المرتبہ خواتین نے غزالی، رازی، بوعلی سینا اور اقبال جیسے لوگ پیدا کیے اوربڑی کثیر تعداد میں عظیم افراد پیدا کیے۔ مغربی خواتین کا ایک حصہ بھی پرورش اطفال کو ضروری سمجھتا ہے مگر براہ راست ذمہ د اری کو اب وہاں بوجھ سمجھا جانے لگا ہے اب پرورش وتربیت کے مصنوعی اورغیرفطری طریقے نکل آئے ہیں اور یہ کام اداروں کے سپرد ہونے لگا ہے’’مادری‘‘ذمے داریاں اب ناگوار ہیں لیکن ہماری قوم کی خواتین کا بیشتر حصہ (خصوصاً غیرسرمایہ دارطبقوں میں ) براہ راست مادری ذمےداریوں کو پورا کرتاہے، انہیں بے کار کہنا قوم کی توہین ہے۔ یہ درست ہے کہ انہیں تعلیم یافتہ ہونا چاہیے لیکن یہ قصور قومی نظام تعلیم کا ہے جو عورتوں کوکیا، بجائے خود، مرد کی تعلیم کابھی اطمینان بخش انتظام نہیں کرسکتا، پھر اس کی ذمہ داری غریبی اور مفلسی پر بھی ہے اور یہ اس وجہ سے ہے کہ قومی معاشی نظام، سرمایہ داری کے غیرمنصفانہ اصولوں پر مبنی ہے تو اس صورت میں دیہاتی عورتوں کا کیا قصور ہے؟ اب رہی بے کاری کی دوسری شق، یعنی یہ خیال کہ گھر کاانتظام داخلی اور خانہ داری گویا کوئی کام ہی نہیں، بڑی بھاری لاعلمی اور بے خبری کاغماز ہے۔ ہماری رائے میں وہ خواتین