کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 71
پیداواری کام نہیں ہوتا مگر دیہاتوں میں بسنے والی کروڑوں اور شہروں کی غریب متوسط اور نیم متوسط خواتین کا یہ حال نہیں۔ وہ قومی زندگی (خاندان کی تعمیر اورگھر) کوآباد رکھنے میں نہایت نتیجہ خیز اور قابل صدتحسین کام انجام دیتی ہیں، لہٰذا انہیں بیکار کہنا اس پر سخت زیادتی ہے۔
میں عورتوں کی تعلیم اور ان کی ملازمت دونوں کاحامی ہوں بلکہ یوں کہو تو بہتر ہوگا کہ ان کی موزوں تعلیم کوفرض عین اوربشرط ضرورت ان کے لیے ملازمت کو ایک مجبوری سمجھتا ہوں جس کی ذمے داری اس خوف پر ہے جو عورتوں کے دلوں میں مردوں (شوہروں ) کے بارے میں پیدا کردیاگیاہے یاہوتا ہے اس کے باوجود میں یہ نہیں مان سکتا کہ گھر اور خانہ داری کی مصروفیات معمولی، حقیر اوربیکار ی کے مترادف ہیں۔ میرے خیال میں یہ کہنا کہ قوم کانصف حصہ بے کار ہے، تہمت بھی ہے اور افسانہ بھی۔ تہمت، اس لیے کہ قوم کی حقیقی معمار(بچوں کی پرورش اورتربیت کرنے والی) آبادی کے خلاف یہ شرمناک طنز ہے جس میں تحقیر کا پہلو پایا جاتا ہے اور افسانہ، اس لیے ہےکہ یہ حقیقت کے خلاف ہے۔ وہ کروڑوں عورتیں جو دیہات میں رہتی ہیں۔ تربیت اطفال اورخانہ داری کے علاوہ بھی مردوں کے معاشی مشاغل میں شریک ہوتی ہیں، چنانچہ ہماری آخری مردم شماری میں اس قسم کا اشتراک ساٹھ اور سترفیصد کے برابر قرار دیا گیا ہے۔ پس کیا ہم ایسی اولوالعزم دیہاتی عورتوں کو’’بے کار‘‘ کے تحقیری لفظ سے یاد کرسکتے ہیں۔ ہرگز نہیں۔ یہ دراصل سرمایہ دارانہ ذہن اور قوم کے سرمایہ دار طبقے کا اپنی بے کاری کوچھپانے کا پردہ(کاموفلاژ) ہے یا پھر مغرب کے خیمہ بردار طبقے کی تقلیدی آواز ہے جو ہمارے ملک میں معاشرتی انارکی پیدا کرنا چاہتا ہے۔ تحقیر کا یہ انداز بظاہر اس دلیل پربھی مبنی ہے کہ یہ