کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 70
’’قوم کی نصف آبادی بیکار‘‘....افسانہ یاحقیقت[1]
مقالے کاعنوان میں نے ماضی قریب میں ہونے والی خواتین کانفرنس کی ایک قابل احترام مقرر خاتون سےلیا ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ ہماری قوم کی آبادی کانصف حصہ بے کار ہے، اسے قومی تعمیر میں مکمل حصہ دار بناناچاہیے۔
محترمہ خاتون کے ارشاد کادوسراحصہ بالکل درست ہےلیکن پہلے حصے کوتسلیم نہیں کیا جاسکتا بلکہ اس پر اعتراض کیا جاسکتا ہے، اس بنیاد پر کہ انہوں نے مسلم معاشرے کو بدنام کرنے میں اہل مغرب کی مغالطہ انگیز مہم میں نادانستہ شرکت کی ہے۔ میں نے اسے بدنام کرنے کی مہم، اس لیےکہا کہ قوم کے نصف حصے کوبیکار کہنا حقیقت کے خلاف ہے۔
غالباً خاتون محترمہ کہنایہ چاہتی ہیں کہ خواتین کی اکثریت موجودہ تعلیم سے عاری اورغیر ملازمت پیشہ ہے اور اس حد تک بات غلط نہیں، درست ہے۔ مگریہ کہنا کہ مسلمان عورتوں کی اکثریت بیکار ہے اور ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھی رہتی ہے، سراسرتہمت اور بہتان ہے۔ بالکل فارغ ہونے کی بات اگر درست ہے تو صرف ان گھرانوں کے بارے میں جو آسودہ حال، سرمایہ دار اور جاگیردار یامفادات ورعایات زندگی سے بہرہ ور ہیں۔ ایسے گھرانوں میں نوکرچاکر بکثرت ہوتے ہیں اور خواتین توکیا خود مردوں کے پاس کوئی مفید
[1] ڈاکٹر سیدمحمد عبداللہ مرحوم