کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 69
مغربی ماحول میں تو ان کا شوق ملازمت اس لیے ہے کہ وہاں خاندان اور گھرکاتصور ایک فرسودہ عمل ہے۔ عورتیں نہ صرف ہم مرتبہ ہونے کا دعویٰ کر کے گھریلو آزادی کی طلب گار ہیں بلکہ معاشی طور پر آزاد ہوکر ان تمام بندشوں سے بھی آزاد ہوجاناچاہتی ہیں جوخاندانی زندگی میں ان پر عائد ہوتی ہیں، وہ خود کفیل ہوکر ہمہ رنگ آزاد شہری بننا چاہتی ہیں، اس میں انہیں ہزارمشکلات بھی پیش آتی ہیں لیکن وہ آزادیٔ کامل کے لیے ہر مشکل کو برداشت کرتی ہیں۔
لیکن اس میں انہیں ایک آسانی بھی ہے اور وہ یہ کہ مذکورہ معاشرہ اس مسئلے میں ان کا ہم خیال ہے اور ہرچند کہ اس میں بداخلاقی کے سارے عیب پائے جاتے ہیں لیکن وہ معاشرہ ان خلافِ اخلاق باتوں کو کوئی اہمیت نہیں دیتا لیکن ہمارےملک میں ایک مسلم خاتون کی مشکل یہ ہے کہ ہمارے مسلم معاشرے کےنزدیک ملازمت، غیرمردوں سے خلاملا، ہرحال میں ناپسندیدہ سمجھا جاتا ہے۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ ایک مسلمان عورت ملازمت کی طرف کیوں راغب ہوتی ہے؟ اس کے کئی اسباب ہیں جن میں سے بعض واقعی قابل توجہ ہیں اگرچہ عمومی رویہ محض مغرب کی نقالی سے ابھراہے۔ مغرب کی تقلید میں ہماری انتہا پسند خواتین عورتوں کی کامل آزادی کی قائل، مردوں کی ہرقسم کی بالادستی کی مخالف اور ان کی ہرقسم کی دست نگری سے گریزاں ہیں۔ یہ مغربی تعلیم اور نقالی کا نتیجہ ہے اور تسلی کا پہلوصرف یہ ہے کہ یہ فکر ابھی سرمایہ دار، بورژوا اور دانشور طبقے تک محدود ہے اور معاشرے میں ان طبقات کے خلاف ایک گونہ تعصب بھی موجود ہے۔
(ڈاکٹر سید عبداللہ صاحب رحمہ اللہ اایک اوراہم مضمون اگلے صفحات میں ملاحظہ فرمائیں )