کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 68
خطرات سے آگاہ کرتے رہنے سے ممکن ہوں گی۔ جب تک ہمارے یہاں مغربی معاشرتی فلسفہ غالب ہے، ہماری سب دلیلیں بے کار وبے اثر ہوں گی، لہٰذا بقول علامہ اقبال مغربی معاشرتی حکمت پر بھرپور حملہ علمی ہتھیار سےلازمی ہے۔ ملازمتوں میں عورتوں کی شرکت، ایک اہم اور نازک معاشرتی افکار کے زیراثرنقطۂ نظر کے بدل جانے کانتیجہ ہے اگر ہم اس معاملے میں اسلام کی معاشرتی حکمتوں سے ہدایت لیں توہمیں اس شرکت میں بے شمار قباحتیں نظرآئیں گی بلکہ کل کے حالات میں ملازمت بڑی حد تک غیراخلاقی اورنامناسب نظرآئے گی کیونکہ اسلام کی معاشرتی حکمت میں عورتوں کافرض بچوں کی پرورش اورخانہ داری ہے اوراس کے بدلے مردوں کا فرض عورتوں بیویوں کی معاشی کفالت ہے تاکہ وہ بے فکر ہو کر اپنے دائرے میں خاندان کی خدمت کرسکیں۔ یہ خدمت ایک بہت بڑا منصب ہے اور جیسا کہ بعض روشن خیال حضرات باور کراتےہیں، یہ کوئی کمترفریضہ نہیں بلکہ اصل تعمیر انسانیت اسی فریضے میں مضمر ہے اور اس کی انجام دہی میں مرد کا کام اگر ان اصطلاحوں میں سوچیں توخادم کا ہے جو بنی نوع انسان کی اس معمار بیوی کو اس کے اہم فریضے کی ادائیگی کے قابل بناتاہے۔ اس عمل یا دوطرفہ عمل میں عورت کا درجہ بلند تر ہے، شوہر کادرجہ دوسرے نمبر پرآتا ہے مگرمغربی معاشرتی تصورات نے اس تقابل کو منقلب کر کے معاملہ زیروزبر کردیا ہے۔ یہ تھا اصولی عقیدہ ایک مسلمان کی حیثیت سے لیکن سوال آج کل کے حالات کا ہے، اس لیے موجودہ حالات میں عورتوں کی ملازمت کے جواز یاعدم جواز پر گفتگو کرنے کی ضرورت ہے۔ پہلےاس سوال کاجواب چاہیے کہ عورتیں ملازمتوں کی شائق یاطلب گارکیوں ہیں ؟