کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 67
نہیں آتا، اس میں عورتوں کے لیے برکتیں اورحکمتیں ہیں ان میں سب سے بڑی حکمت عورتوں کا معاشرتی تحفظ، ان کی عزت کی حفاظت اور خاندانی زندگی کااستحکام ہے۔
عورتوں کو ہر سطح تک تعلیم دی جاسکتی ہے، بشرطیکہ مذکورہ بالا مصلحتوں اورحکمتوں کو گزند نہ پہنچے اور یہ سب عورتوں کے فائدے کی خاطر ہے ان پر زیادتی نہیں۔
مخلوط اوریکساں نصاب پربحث کی ضرورت نہیں، اس کانفع نقصان سب کومعلوم ہے لیکن اگر تعلیم مخلوط نہ ہو توعورتوں کواختیار دیاجائے کہ وہ ہر شعبۂ تعلیم میں جسے وہ اپنے لیے مفید سمجھتی ہیں داخلہ لے لیں، یعنی ان سب شعبوں میں جو انہیں اپنے لیے مفید نظر آئیں یا معاشرے کے لیے مفید ہوں لیکن مخلوط ملازمتوں کا مسئلہ جدا ہے، مخلوط ملازمتوں کے سلسلے میں جوقباحتیں ہیں وہ ہر کسی کومعلوم ہیں۔
ظاہر ہے کہ عورتیں اپنے لیے جن مضامین کومفید خیال کریں گی ان میں اکثر ایسے ہوں گے جو مردوں کے لیے بیگانہ اورنامانوس ہوں گے، اس لیے اگر عورتوں کی تعلیم کانظام یکسر علیحدہ ہوگا تب جاکرانہیں فائدہ ہوگا۔ اس کاواحد علاج عورتوں کے لیے بالعموم الگ نصاب اور ایک الگ خواتین یونیورسٹی کا قیام ہے۔ مردوں اور عورتوں کے لیے یکساں نصاب کا فلسفہ غیرقدرتی اورغیرمعقول ہے۔ یہ بات اور ہے کہ آج کی دنیا میں اس غیر معقول فلسفے کو اپنایاجارہا ہے اگرچہ اس میں عورتوں کو بہت نقصان پہنچ رہا ہے لیکن رواج عام کاغلبہ زبردست شے ہے، اس کے سامنے ہرکوئی دب جاتا ہے۔ اس رواج کو تبدیل کرنے کے لیے ایک معاشرتی انقلاب کی ضرورت ہے مگر ایسا انقلاب کوئی آسان کام نہیں، سب سےپہلے فکری تبدیلیوں کی ضرورت ہے اور یہ تبدیلیاں مغربی معاشرتی فلسفوں پر مسلسل ومنظم تنقید کرتے رہنے سے اور عملی تجربوں کے حوالے سے ان کے