کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 66
خواتین کی تعلیم اور ملازمت کامسئلہ[1]
امام غزالی اور علامہ اقبال کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ وہ عورتوں کی اعلیٰ تعلیم کو ضروری نہیں سمجھتے تھے۔ یہ غلط فہمی دور ہونی چاہیے کہ وہ خدانخواستہ عورتوں کی تعلیم کے مخالف تھے۔ وہ مخالف ہرگز نہ تھے وہ بس یہ چاہتے تھے کہ عورتیں صرف وہ تعلیم حاصل کریں جو ان کی فطرت، خلقت اور فرائضِ مخصوصہ کے مطابق زندگی میں ان کے اور خاندان کے کام آئے اور صحیح یہ ہے کہ قدرت نے عورت کے لیے الگ دائرۂ کار مقرر کیا ہے جس کی تشریح کی یہاں ضرورت نہیں کیونکہ یہ بات ہرشخص کو معلوم ہے کہ بے شمار کام ایسے ہیں جو مرد نہیں کرسکتے اور لاتعداد کام ایسے ہیں جو عورتوں کی طاقت سے باہر ہیں، لہٰذا ہر گروہ کو ان کے کاموں کی نسبت سے تعلیم دینی چاہیے۔ یہ اعلیٰ اور ادنیٰ تعلیم کامعاملہ نہیں بلکہ ہر کسی کو اس کے مزاج اور فطری صلاحیتوں کے مطابق مناسب تعلیم دینے کا مسئلہ ہے اور یہ خیالات صرف غزالی اور اقبال ہی کے نہیں خود سرسید احمد خان کے بھی ہیں جو مغربی انداز کے ہمارے یہاں اولین بڑے علمبردار تھے۔ سرسید احمد خان کی یہ سرگزشت دیکھنی ہو تو ان کاسفرنامہ ٔ پنجاب مرتبہ سید اقبا ل علی پڑھیے۔
اور جہاں تک مخلوط تعلیم کا تعلق ہے تومذکورہ بالابزرگ اور دوسرے ہزاروں علماء وحکماء اسے خطرناک سمجھتے تھے کیونکہ اس کا ان معاشرتی واخلاقی احکام سے تصادم ہے جو قرآن مجید میں مذکور ہیں یاجن کا اوپر ذکرآیا۔ یہ امر عورتوں پر پابندی یاسختی کے ضمن میں
[1] ڈاکٹر سیدمحمد عبداللہ مرحوم