کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 65
وکرامت میں تفاوت نہیں ہے، تاہم صلاحیتوں میں فرق وتفاوت کوجھٹلانا بھی آفتاب نیم روز کوجھٹلانے کے مترادف ہے۔
اس تیسری قسم میں عورتوں کی شہادت کا مسئلہ بھی ہے۔ جب یہ حقیقت ناقابل انکار ہے کہ عورت بعض باتوں میں مرد سے مختلف اورممتاز ہے، مثلاً:
٭ اس میں شرم وحیا کا مادہ زیادہ ہے۔
٭ وہ مرد کی طرح فصیح وبلیغ نہیں ہے۔
٭ وہ دماغی وذہنی صلاحیتوں میں کچھ کمزور ہے۔ جس کی وجہ سے وہ ضعف حافظہ، نسیان اورذہول کا زیادہ شکار ہوتی ہے۔ جسے حدیث میں نقصان عقل اور قرآن کریم میں :
﴿اَنْ تَضِلَّ اِحْدٰىھُمَا فَتُذَكِّرَ اِحْدٰىہُمَا الْاُخْرٰى﴾ [البقرۃ:282]
سے تعبیر کیا گیا ہے۔
٭ اسلام نے عورت کا مردوں کے ساتھ اختلاط اور گھر سے زیادہ باہر نکلنے کو ناپسند کیا ہے۔
اگر یہ ساری باتیں تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں تو پھر اس بات کےماننے میں تأمل کیوں ہے کہ مسئلہ شہادت میں بھی شریعت نے مرد کوفوقیت اورترجیح دی ہے اور عورت کی گواہی کو بہ وقت ضرورت ہی تسلیم کیا ہے۔ عام حالات میں مردوں کی موجودگی میں اس کے گواہ بننے کو پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا ہے کیونکہ شہادت کے تقاضوں کو عورتیں مردوں کی طرح نبھانے پر فطری طور پر قادر نہیں ہیں۔ (اس کی مزید تفصیل ’’مسئلہ شہادت نسواں، عقل ونقل کی روشنی میں ‘‘کے عنوان سے ہے جسے راقم کی کتاب ’’ خواتین کے امتیازی مسائل‘‘ میں دیکھا جاسکتا ہے۔
٭٭٭٭