کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 64
عورتیں کرسکتی ہیں، مرد نہیں کرسکتے دنیا کی کوئی طاقت ان میں تبدیلی کرنے پر قادر نہیں جیسے مرد کا بارآور کرنا اور عورت کاحاملہ اور مرضعہ ہونا۔
2۔ اور بہت سے کام ایسے ہیں کہ جنہیں اگرچہ مردوں کی طرح عورتیں بھی کرسکتی ہیں لیکن ان کاموں کو عورتوں پرفرض نہیں کیاگیا ہے تاکہ عورت کا اصل دائرہ کار (گھریلو زندگی) متأثر نہ ہو اور مردوں کے ساتھ عام اختلاط نہ ہو جو اسلام کے نزدیک سخت ناپسندیدہ ہے۔ نماز باجماعت، جمعہ، جنازے اور جہاد میں شرکت سے عورتوں کااستثنا اسی اصول پر مبنی ہے اور کسب معاش کے بوجھ سے بھی اسے اسی بنیاد پر فارغ رکھا گیا ہے۔
اسلام کے نزدیک عورت کا اپنے آپ کو صرف امورخانہ داری تک محدود رکھنا، اس عزت وشرف کے بقا کے لیے بھی ضروری ہے جو اس نے عورت کوعطا کیا ہے۔ خاندان کی حفاظت وصیانت کا بھی عین تقاضا ہے اور انسانی معاشرے کو فساد قلب ونظر سے بچانے کے نقطۂ نظر سے بھی یہ ایک امر ناگزیر ہے۔
3۔ بہت سے معاملات ایسے ہیں کہ عورت اپنی فطری کمزوری کی وجہ سے انہیں اس طرح انجام نہیں دے سکتی جس طرح مرد اپنی خداداد صلاحیتوں کی وجہ سے ان پر قادرہے۔ اللہ تعالیٰ نے جس طرح مرد کو جسمانی قوت عورت سے زیادہ عطا کی ہے، اسی طرح ذہنی، دماغی صلاحیتوں میں بھی وہ عورت سے فائق ہے۔ اس فطری کمزوری، یا فطری خوبیوں کی وجہ سے کسی کوحقیر سمجھنا اور کسی کوبالاتر مخلوق قرار دے دینا بلاشبہ صحیح نہیں ہے۔ قدرت کو جس سے جو کام لینا ہے، اسی کے مطابق اس کومخصوص صلاحیتیں بھی عطا کی ہیں۔ ان فطری صلاحیتوں کا انسانی شرف وکرامت سے کوئی تعلق نہیں ہے، اس اعتبار سے مرد وعورت دونوں یکساں ہیں۔ صلاحیتوں کے تفاوت کامطلب، شرف