کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 61
أَعْلاَهُ، فَإِنْ ذَهَبْتَ تُقِيمُهُ كَسَرْتَهُ، وَإِنْ تَرَكْتَهُ لَمْ يَزَلْ أَعْوَجَ، فَاسْتَوْصُوا بِالنِّسَاءِ))
’’عورتوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کی وصیت مانو!عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے، اور سب سے زیادہ کجی اوپر کی پسلی میں ہوتی ہے۔ پس اگر تم اسے سیدھا کرنے لگو گے تو توڑ دو گے اور یوں ہی چھوڑ دوگے تو کجی باقی رہے گی۔ پس عورتوں کے ساتھ اچھا برتاؤکرنے کی وصیت قبول کرو۔ ‘‘[1]
حافظ ابن حجر لکھتے ہیں :
((وَفِيهِ سِيَاسَةُ النساء بِأَخْذِ الْعَفْوِ مِنْھُنَّ وَالصَّبْرِ عَلَى عِوَجِھِنَّ وَأَنَّ مَنْ رَامَ تَقْوِيمَهُنَّ فَإِنَّهُ الِانْتِفَاعُ بِھِنَّ مَعَ أَنَّهُ لَا غِنَى لِلْإِنْسَانِ عَنِ امْرَأَةٍ يَسْكُنُ إِلَيْھَا وَيَسْتَعِينُ بِھَا عَلَى مَعَاشِهِ فَكَأَنَّهُ قَالَ الِاسْتِمْتَاعُ بِھَا لَا يَتِمُّ إِلَّا بِالصَّبْرِ عَلَيْھَا))
’’مطلب اس کا یہ ہےکہ عورت کے مزاج میں تھوڑی سی کجی ہے (جوضد وغیرہ کی شکل میں بالعموم ظاہر ہوتی رہتی ہے۔ ) پس اس کمزوری میں اسے معذور سمجھو کیونکہ یہ پیدائشی ہے۔ اسے صبر وحوصلے کے ساتھ برداشت کرو اور ان سے عفو ودرگزر کا معاملہ کرو اگر تم انہیں سیدھا کرنے کی کوشش کروگے تو ان سے فائدہ نہیں اٹھا سکوگے درآں حالیکہ ان کا وجود انسان کے سکون کے لیے ضروری ہے اور کشمکش حیات میں ان کا تعاون ناگزیر ہے، اس لیے صبر کے بغیر ان سے استمتاع اور نباہ ناممکن ہے۔ ‘‘[2]
ایک دوسری حدیث میں عورت کے سریع الغضب(زود رنج ہونے) اور ذرا سی بات خلاف طبیعت پیش آجانے پر ایک دم سارے احسانات فراموش کردینے کی فطرت کو اس طرح بیان کیاگیا ہے:
[1] صحیح البخاری:أحادیث الأنبیاء، باب خلق آدم وذریتہ، حدیث:3331
[2] فتح الباری، (9؍315)