کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 60
لیے بالکل ضروری نہیں کہ جس کو وہ اچھا یا برا بتائے، واقعی وہ اچھا یا برا ہی ہو۔ ‘‘[1] مشہور حنفی فقیہ علامہ ابن ہمام، عورت کوحق طلاق نہ دیے جانے کےضمن میں لکھتے ہیں : ((جَعْلُهُ بِيَدِ الرِّجَالِ دُونَ النساء لِاخْتِصَاصِهِنَّ بِنُقْصَانِ الْعَقْلِ وَغَلَبَةِ الْهَوَى، وَعَنْ ذَلِكَ سَاءَ اخْتِيَارُهُنَّ وَسَرُعَ اغْتِرَارُهُنَّ وَنُقْصَانِ الدِّينِ، وَعَنْهُ كَانَ أَكْثَرُ شُغْلِهِنَّ بِالدُّنْيَا وَتَرْتِيبِ الْمَكَايِدِ وَإِفْشَاءِ سِرِّ الْأَزْوَاجِ وَغَيْرِ ذَلِكَ)) طلاق کااختیار صرف مرد کے ہاتھ میں دینے کے وجوہ میں سے چند یہ ہیں : ’’عورتیں ناسمجھ(نقصان عقل) اور غلبۂ ہوی (جذباتی ہونے) کی وجہ سے اختیارات کا غلط طور پر استعمال کرنے لگتی ہیں اور جلد فریب کاشکار ہوجاتی ہیں اور دینی حیثیت سےکمزور (نقصان دین) ہونے کی وجہ سے دنیا کے کاموں (بناؤسنگھار، غیبت اور بدگوئی وغیرہ) میں زیادہ منہمک رہتی ہیں، مکر کے جال بنتی رہتی ہیں اور شوہروں کے رازوں کوظاہر کردیتی ہیں اور اس طرح کی اور چیزیں ہیں۔ ‘‘ [2] اس لیے شریعت اسلامیہ نے طلاق کا حق بھی صر ف مردوں کو دیا ہے جو عقل و فہم، تدبر، دوراندیشی اور حوصلہ وعزم میں عورت سے فائق ہے۔ ہر سمجھ دار طلاق دینے سے پہلے بہت کچھ سوچتا ہے اور بدرجۂ آخر یہ حق طلاق استعمال کرتا ہے جس طرح کہ شریعت نے بھی اسے بدرجۂ آخر ہی استعمال کرنے کی تاکید کی ہے۔ عورت کی اس کمزوری کا ذکر احادیث میں اس طرح کیا گیا ہے۔ فرمایا: ((اسْتَوْصُوا بِالنِّسَاءِ، فَإِنَّ المَرْأَةَ خُلِقَتْ مِنْ ضِلَعٍ، وَإِنَّ أَعْوَجَ شَيْءٍ فِي الضِّلَعِ
[1] دائرۃ المعارف (عربی) فرید وجدی(8؍596) بحوالہ’’معاشرتی مسائل دین فطرت کی روشنی میں‘‘ مؤلف مولانا برہان الدین شائع کردہ مکتبۃ الحسن لاہور۔ [2] فتح القدیر:الطلاق، (3؍365)