کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 59
مجہول النسب رہتا۔ آخر کس کی طرف یقین کے ساتھ اسے منسوب کیا جاتا؟ اس کے علاوہ اس کی متعدد حکمتیں ہیں، جس کی کچھ تفصیل آگے آئےگی۔
مرد کاحق طلاق اور اس کی حکمت
حق طلاق بھی وہ حق ہے جو اسلام نے مرد کو تودیا ہے، عورت کو نہیں دیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عورت مرد کے مقابلے میں مشتعل اور جلدبازی میں جذباتی فیصلہ کرنے والی ہے، نیز عقل اوردوراندیشی میں کمزور ہے۔ عورت کو بھی اختیار دیے جانے کی صورت میں، یہ اہم رشتہ جوخاندان کےا ستحکام وبقا اور اس کی حفاظت وصیانت کے لیے بڑا ضروری ہے، تارعنکبوت سے زیادہ پائیدار نہ ہوتا۔ علمائے نفسیات وطبیعات بھی اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں، چنانچہ علامہ فرید وجدی لکھتے ہیں :
’’عور ت کی جسمانی ساخت بچوں کی جسمانی ترکیب سے قریب تر ہوتی ہے، اس لئے عام طور پر یہ دیکھا جاتا ہے کہ وہ بچوں کی طرح جلد متاثر اور منفعل ہوجاتی ہے۔ فرحت وکلفت، خوف ومسرت کےاحساسات جلدہی اس پر طاری ہوجاتےہیں اور چونکہ اس میں عقلیت اورغور وفکر کی قوت کو زیادہ دخل نہیں ہوتا، اس لیے جلد ہی تأثرات اس سے زائل بھی ہوجاتے ہیں اور اکثر دیرپاثابت نہیں ہوتے۔ اس بنا پر عورت متلون اور غیرمستقل مزاج ہوتی ہے۔ ‘‘
ایک اور اشتراکی فلسفی کے حوالے سےوہ لکھتے ہیں :
’’عورت کا وجدان مرد کے وجدان سےکمزور ہوتا ہے، جتنی کہ اس کی عقل مرد کی عقل سے کم ہوتی ہے، اس کے اخلاقی پیمانے بھی مرد سے مختلف ہوتے ہیں، اس