کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 58
اسے خاندان کی طرف سے مہر ملےگا، جس سے اس کی مالی حیثیت میں اضافہ ہی ہوگا، جبکہ اس کے برعکس لڑکے کو اپنی شادی پر بھی خرچ کرنا پڑے گا اور آنے والی بیوی کو مہر بھی ادا کرے گا، اس کے نان ونفقہ کا بھی ذمے دار ہوگااور شاید اپنی بہن کی شادی کاخرچہ بھی اسے ہی برداشت کرناپڑے۔ مکان اگر نہیں ہے بیوی بچوں کےلیے مکان کا بھی انتظام کرے گا۔ جبکہ اس کی بہن ان تمام جھمیلوں کھکھیڑوں سے محفوظ ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسلام کانظام وراثت کس طرح حکمت سے پُر اور عدل وانصاف کے عین مطابق ہے۔ مرد کو ایک سے زیادہ چار تک شادیاں کرنےکی اجازت ہے اسلام میں مرد کوحسب ضرورت واقتضا ایک سے زیادہ، یعنی چار تک بیویاں رکھنے کا حق حاصل ہے اورمغرب زدہ طبقہ اس پر کتنا بھی چیں بہ جبیں ہو لیکن واقعہ یہ ہےکہ اسلام نے مرد کو یہ حکیمانہ اجازت دے کر انسانی معاشرے کو بہت سی خرابیوں سے بچانے کا اہتمام کیا ہےجس کااعتراف اب مغرب کے وہ دانشور بھی کررہے ہیں جن کے ہاں قانونی طور پر تو ایک سے زیادہ بیوی نہیں رکھی جاسکتی لیکن داشتائیں رکھنے اور باہمی رضامندی سے زناکاری کی عام اجازت ہے۔ عورت کو یہ اجازت نہیں ہے کہ وہ بیک وقت کئی خاوندوں کی بیو ی بن کر رہے اور اس میں حکمت یہی ہے کہ ایک تو خلقی طورپر عورت مرد کے مقابلے میں کمزور ہے۔ وہ زیادہ مردوں کی متحمل ہوہی نہیں سکتی۔ دوسرا سب سے اہم مسئلہ نسب کی حفاظت کا ہے۔ عورتوں کو بھی مردوں کی طرح ایک سے زیادہ خاوندوں کی اجازت ہوتی تو ہونے والابچہ