کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 57
کرتی۔ ‘‘[1] ان احادیث سے واضح ہے کہ جمعہ، جماعت، جنازہ اور جہاد وغیرہ فرائض میں عورتوں کی شرکت کو ضروری قرار نہیں دیا گیا ہے بلکہ ان کے ساتھ یہ خصوصی رعایت کی گئی ہے کہ گھر بیٹھے ہی انہیں ان فرائض کا اجروثواب مردوں ہی کی طرح مل جائے گابشرطیکہ وہ گھریلوامور پوری ذمے داری سے ادا کریں۔ وراثت میں عورت کانصف حصہ وراثت میں بھی مرد وعورت کے درمیان فرق ہے۔ ﴿لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَيَيْن ﴾ ’’مرد کے لیے دوعورتوں کی مثل ہے‘‘(النساء11:4) اور ا س کی وجہ بھی وہی مرد وعورت کے دائرۂ کار کااختلاف ہے۔ اسلام میں چونکہ نان ونفقہ کاذمے دار مرد کو بنایاگیا ہے، عورت کونہیں، اس لیے مرد کی ذمے داریوں کے بوجھ کے حساب سے اسے وراثت میں حصہ بھی دگنا دیاگیاہے۔ اگر ایسا نہ کیا جاتا تومرد پر ظلم ہوتا۔ اس کو ایک مثال سے یوں سمجھاجاسکتا ہے۔ ایک شخص فوت ہوجاتا ہے، اس کے ورثاء میں ایک لڑکا اور ایک لڑکی ہے۔ اس کی جائیداد میں اسے ﴿لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَيَيْن ﴾کے تحت لڑکے کو ایک لاکھ کی رقم ملتی ہے اور لڑکی کو پچاس ہزارروپے۔ لڑکی کے یہ پچاس ہزار روپے نہ صرف محفوظ رہیں گے بلکہ ان میں اضافہ ہوگا اگر وہ اس کو کسی کاروبار میں لگادے تو نفع آئے گا۔ علاوہ ازیں شادی پر
[1] صحیح مسلم، كتاب الجھاد:باب النساء الغازیات....الخ، حدیث:1812