کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 56
’’ہاں !ان پر بھی جہاد فرض ہے لیکن لڑائی والاجہاد نہیں، ان کا جہاد حج اور عمرہ ہے۔ ‘‘[1] غزوۂ بدر کے موقع پر حضرت ام ورقہ بنت نوفل رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا مجھے بھی اجازت دیجئے کہ آپ کے ساتھ جنگ میں چلوں اور زخمیوں اور بیماروں کی دیکھ بھال کا کام کروں، شاید اس طریقے سے اللہ تعالیٰ مجھے رتبۂ شہادت سے سرفراز فرمادے۔ آپ نے فرمایا: ((اقَرِّي فِي بَيْتِكِ فَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى يَرْزُقُكِ الشَّهَادَةَ)) ’’تم اپنے گھر ہی میں ٹک کر رہو، تمہیں اللہ تعالیٰ ایسے ہی شہادت کا رتبہ عطا فرما دے گا۔ ‘‘ راوی کابیان ہے، چنانچہ ان کا نام ہی شہیدہ پڑگیاتھا۔ [2] اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض غزوات میں چندخواتین اسلام نے حصہ لیا ہےلیکن وہ محض گنتی کی چند عورتیں تھیں اور انہوں نے بھی وہاں جاکر مردوں کے دوش بدوش مورچے سنبھالے تھے نہ توپ وتفنگ سے وہ مسلح تھیں بلکہ صرف پیچھے رہ کر فوجیوں کی خوراک اور مرہم پٹی کاکام کرتی رہتی تھیں۔ جس طرح حضرت ام عطیہ انصاریہ رضی اللہ عنہا نے وضاحت کی ہے: ((غَزَوْتُ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَبْعَ غَزَوَاتٍ، أَخْلُفُهُمْ فِي رِحَالِهِمْ، فَأَصْنَعُ لَهُمُ الطَّعَامَ، وَأُدَاوِي الْجَرْحَى، وَأَقُومُ عَلَى الْمَرْضَى)) ’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سات غزوات میں شرکت کی میں ان کے خیموں میں پیچھے رہتی، ان کے لیے کھانا تیار کرتی، زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی اور بیمار پرسی
[1] سنن ابن ماجہ، كتاب المناسک، باب الحج جھاد النساء، حدیث:2901 [2] سنن أبی داؤد، الصلاۃ، باب امامۃ النساء، حدیث:591