کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 49
داریاں صرف مردوں پرعائد کی ہیں، عورتوں کو ان سے مستثنیٰ رکھا ہے۔ اسی طرح بعض خصوصیات سے عورتوں کونوازا ہے، مردوں کو ان سے محروم رکھا ہے لیکن ان فطری صلاحیتوں کے فرق وتفاوت کامطلب کسی صنف کی برتری اور دوسری صنف کی کمتری وحقارت نہیں ہے۔ مثال کے طور پر مردکے اندر اللہ تعالیٰ نے صلاحیت رکھی کہ وہ عورت کو بارآور کرسکتا ہے لیکن خود بارآور نہیں ہوسکتا، اس کے برعکس عورت کے اندرصلاحیت رکھی ہے کہ وہ بارآور ہوسکتی ہے لیکن وہ بارآور کرنہیں سکتی۔ گویا مرد کے اندرتخلیق وایجاد کا جوہر رکھا گیا ہے تو عورت کو اس تخلیق وایجاد کے ثمرات ونتائج سنبھالنے کاسلیقہ اورہنر عطا کیاگیا ہے۔ اسی طرح اگر مرد کو حکمرانی وجہانبانی کاحوصلہ عنایت کیا گیا ہے تو عورت کو گھربسانے کی قابلیت بخشی گئی ہے۔ مرد کے اندر قوت وعزیمت کے اوصاف رکھے گئےہیں تو عورت کو دل کشی ودل ربائی کا وصف عطا کیاگیا ہے، چنانچہ اس کارخانۂ عالم کی زیب وزینت کسی ایک ہی صنف کے اوصاف سے نہیں ہے بلکہ دونوں قسم کے اوصاف سےہے اور دونوں ہی انسانی معاشرے کے اہم رکن ہیں۔ انسانی معاشرے کاوجود اور بقا ان دونوں میں سے کسی ایک ہی پرمنحصر نہیں ہے کہ ساری اہمیت بس اسی کو دے دی جائے اور دوسرے کو یکسر نظر انداز کردیا جائے بلکہ اس پہلو سےد ونوں مساوی حیثیت رکھتے ہیں، البتہ خصوصیات اورصلاحیتیں دونوں الگ الگ لے کرآئے ہیں، لہٰذا مرد جوکام کرسکتے ہیں، عورتیں وہ سارے کام نہیں کرسکتیں لیکن ایسے مردانہ کام نہ کرسکنا، عورت کی تحقیر نہیں ہے۔ اسی طرح عورت کے بعض کام مرد نہیں کرسکتے تو اس میں ان کےلیے حقارت کاپہلو نہیں۔ دونوں اپنی اپنی صلاحیتوں کے مطابق اعمال