کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 47
اسے ناپسند فرمایا اور نکاح رد کردیا، یعنی کالعدم قرار دے دیا۔ [1] (اس پر مزید گفتگو مسئلہ ولایت نکاح میں ملاحظہ فرمائیں ) شادی کے بعد اگرخاوند عورت کے نزدیک ناپسندیدہ ہوتو اس سے گلوخلاصی حاصل کرنے کے لیے، اسی طرح عورت کو خلع کاحق دیا گیا ہے، جس طرح مرد کو ناپسندیدہ بیوی سے چھٹکاراحاصل کرنے کے لیے طلاق کاحق حاصل ہے۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ مرد کو تو طلاق کاحق ہے لیکن اس کے مقابلےمیں عورت مجبور ہے۔ وہ اگر خاوند کو ناپسند کرتی ہے تو اس کے لیے اس سے نجات حاصل کرنے کی کوئی صورت نہیں۔ یہ تصور صحیح نہیں۔ عورت کو مرد کے حق طلاق کے مقابلے میں اسلام نے حق خلع عطا کیا ہے، البتہ اس نے مردوعورت دونوں کو یہ تاکید کی ہے کہ دونوں اپنا یہ حق انتہائی ناگزیر حالات میں استعمال کریں۔ محض ذائقہ بدلنے کے لیے استعمال نہ کریں۔ اگر کوئی ایسا کرے گا تو سخت گناہ گار ہوگا۔ اسی طرح شریعت اسلامیہ نے مرد کوطلاق دینے کے بعد رجوع کا حق دیا ہے اس میں عورت پرظلم کی صورت ہوسکتی تھی کہ طلاق دینے کے بعد عدت کے اندر باربار مرد رجوع کرلے اور یوں عورت کو نہ آباد کرے اور نہ مکمل آزاد کرے اور وہ بیچ میں معلق رہے، جس طرح زمانۂ جاہلیت میں عورت کو اس طرح تنگ کیا جاتا تھا کہ وہ اس کوطلاق دیتے تھے نہ آباد کرتے تھے بلکہ طلاق دیتے اور عدت گزرنے سے قبل ہی رجوع کرلیتے، پھر طلاق دیتے اور پھر عدت گزرنے سے قبل رجوع کرلیتے اور یہ سلسلہ سالہا سال تک اسی طرح معلق چلتا رہتا۔ شریعت نے اس ظلم کے انسداد کے لیے حق طلاق کومحدود کردیا
[1] صحیح البخاری:النکاح، بَابُ إِذَا زَوَّجَ ابْنَتَهُ وَهِيَ كَارِهَةٌ فَنِكَاحُهُ مَرْدُودٌ، حدیث:5138