کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 46
سرپرستوں کو ایسا نکاح فسخ کرانے کا اختیاررہتا ہے۔ [1] دوسری طرف عورت کی رضامندی اور اس کی اجازت بھی ضروری قرار دی گئی ہے اور فرمایا: ((لاَ تُنْكَحُ الأَيِّمُ حَتَّى تُسْتَأْمَرَ)) ’’بیوہ عورت کانکاح اس کے مشورے کے بغیر نہ کیاجائے۔ ‘‘[2] نیز فرمایا: ((لاَ تُنْكَحُ البِكْرُ حَتَّى تُسْتَأْذَنَ)) ’’کنواری لڑکی کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر نہ کیاجائے۔ ‘‘[3] کنواری عورت کے اندر شرم وحیازیادہ ہوتی ہے، اس لیے اس سے اجازت طلبی کا مسئلہ مشکل تھا، اسے بھی شریعت نے اس طرح حل فرمادیا کہ’’کنواری کی خاموشی ہی اس کی اجازت اور رضامندی ہے۔ ‘‘[4] عورت کی رضامندی اور اس کی اجازت کی شریعت میں کتنی اہمیت ہے، اس کا اندازہ عہد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک واقعے سے بآسانی لگایاجاسکتا ہے کہ ایک خاتون خنساء بنت خِذام انصاریہ کا نکاح ان کے والد نے ان کی اجازت کے بغیر کردیا۔ انہیں یہ رشتہ ناپسند تھا۔ انہوں نے آکرنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں باپ کی شکایت کی توآپ نے
[1] فتح القدیر لابن الھمام(3؍255) [2] صحیح البخاری:النکاح، باب لاینکح الأب وغیرہ البکر والثیب إلا برضاھما، حدیث:5136 [3] صحیح البخاری: النکاح، باب لاینکح الأب وغیرہ البکر والثیب إلا برضاھما، حدیث:5136 [4] صحیح البخاری :النکاح، باب لاینکح الأب وغیرہ البکر والثیب إلا برضاھما، حدیث:5136