کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 45
معاشرت کی تاکید کی فضیلت بیان ہوچکی ہے لیکن عورت کے لیے دومرحلے اس کی زندگی میں بڑے اہم موڑکی حیثیت رکھتے ہیں۔ ایک مرحلہ شادی سے قبل رشتۂ ازدواج قائم کرنے میں اس کی پسند اور ناپسند کا مسئلہ ہے اور دوسرا مرحلہ وہ ہے کہ شادی کے بعد اگر خاوند صحیح کردار کاحامل ثابت نہ ہو تو اس سے گلوخلاصی کی کیاصورت ہے؟ ان دونوں مرحلوں کے لئے بھی اسلام نے عورت کے جذبات کوملحوظ رکھتے ہوئے نہایت معقول ہدایات دی ہیں تاکہ عورت پر کسی طرح سے بھی جبروظلم نہ ہوسکے۔
1۔ نکاح میں عورت کی پسند اور اس کے اختیار کے مسئلے میں بالعموم بڑی افراط وتفریط پائی جاتی ہے۔ کہیں تو عورت کو بالکل بے دست وپابنادیاگیا ہے، اس کی پسند وناپسند کی قطعاً کوئی پروا نہیں کی جاتی اور کہیں ایسا بااختیار بنادیا گیا ہے کہ ماں باپ اور اس کے سرپرستوں کی رائے اور مشورے کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہتی۔ اسلام نے اس افراط وتفریط کے مقابلے میں یہ راہ اعتدال اختیار کی کہ ایک طرف ولی(سرپرست) کی ولایت اور اجازت ضروری قرار دی اور فرمایا:
((لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ))
’’ولی کے بغیر کوئی نکاح نہیں ہے۔ ‘‘[1]
اس حدیث کی روشنی میں اکثر ائمہ کے نزدیک ایسا نکاح منعقد ہی نہیں ہوتا، تاہم فقہاء کا ایک گروہ اس حدیث کی تضعیف یاتاویل کی وجہ سے انعقاد نکاح کا توقائل ہے لیکن اس کے ناپسندیدہ ہونے میں اسے بھی کلام نہیں اور بعض شکلوں میں ان کے نزدیک
[1] سنن ابی داؤد: النکاح، باب فی الولی، حدیث:2085تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو، فتح الباری(9؍184):تحت حدیث:5153.5127، ونیل الاوطار(6؍256۔ 252)