کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 44
فرمایا: ’’پھر تمہارا باپ۔ ‘‘[1]
اس حدیث میں تین مرتبہ ماں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی تاکید فرمانے کے بعد چوتھی مرتبہ باپ کے ساتھ حسن سلوک کاحکم دیاگیا ہے۔ اس کی وجہ علماء نے یہ لکھی ہے کہ تین تکلیفیں ایسی ہیں جو صرف ماں برداشت کرتی ہے، بچے کے باپ کا اس میں حصہ نہیں۔ ایک حمل کی تکلیف جونومہینے عورت برداشت کرتی ہے۔ دوسری وضع حمل(زچگی) کی تکلیف، جوعورت کے لیے موت وحیات کی کشمکش کا یک جاں کَسل مرحلہ ہوتا ہے۔ تیسری رضاعت (دودھ پلانے) کی تکلیف، جو دوسال تک محیط ہے۔ بچے کی شیرخوارگی کا یہ زمانہ ایسا ہوتا ہے کہ ماں راتوں کو جاگ کر بھی بچے کی حفاظت ونگہداشت کامشکل فریضہ سرانجام دیتی ہے۔ اس دوران میں بچہ بول کر اپنی ضرورت بتلاسکتا ہے نہ اپنی کسی تکلیف کا اظہار ہی کرسکتا ہے۔ صرف ماں کی ممتا اور اس کی بے پناہ شفقت اور پیار ہی اس کاواحد سہارا ہوتا ہے۔ عورت یہ تکلیف بھی ہنسی خوشی برداشت کرتی ہے۔
یہ تین مواقع ایسے ہیں کہ صرف عورت ہی اس میں اپنا عظیم کردار ادا کرتی ہے اور مرد کا اس میں حصہ نہیں۔ انہی تکالیف کااحساس کرتے ہوئے شریعت نے باپ کےمقابلے میں ماں کےساتھ حسن سلوک کی زیادہ تاکید کی ہے۔
شادی سے قبل اور شادی کے بعد
شادی سے قبل اس کی تعلیم وتربیت کی فضیلت اور شادی کے بعد عورت سے حسن
[1] صحیح البخاری:الادب، بَابٌ: مَنْ أَحَقُّ النَّاسِ بِحُسْنِ الصُّحْبَةِ، حدیث:5971وصحیح مسلم:البروالصلۃ والأدب، باب البر الوالدین وأیھما أحق بہ، حدیث:2548واللفظ لہ