کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 43
تاکید کی ہے۔ اس کی ماں نےکمزوری پرکمزوری برداشت کرتے ہوئے حمل کی مدت پوری کی اور اس کا دودھ چھڑانا دوسال میں ہے(یہ اس لیے) کہ وہ میرا اور اپنے والدین کا شکر ادا کرے‘‘(لقمان 31 : 14)
دوسری جگہ فرمایا:
﴿وَوَصَّيْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَيْہِ اِحْسٰنًا حَمَلَتْہُ اُمُّہٗ كُرْہًا وَّوَضَعَتْہُ كُرْہًا﴾
’’اور ہم نے انسان کو اس کے والدین کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کی ہے، اس کی ماں نے اسے مشقت کے ساتھ حمل میں رکھا اور مشقت وتکلیف کے ساتھ اس کوجنا۔ ‘‘(الاحقاف15 : 46)
ان دونوں آیات میں اگرچہ والدین کے ساتھ حسن سلوک کاحکم اور اس کی تاکید کی گئی ہے لیکن ماں کے حمل وولادت کی تکلیف کابطور خاص جس طرح ذکر کیا گیا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ماں کاحق باپ سے کئی گنازیادہ ہے اورحدیث سے بھی اس کی تاکید ہوتی ہے، چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا:
((مَنْ أَحَقُّ النَّاسِ بِحُسْنِ صَحَابَتِي؟ قَالَ: أُمُّكَ قَالَ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: ثُمَّ أُمُّكَ قَالَ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: ثُمَّ أُمُّكَ قَالَ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: ثُمَّ أَبُوكَ))
’’میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’تمہاری ماں۔ ‘‘ اس نے پوچھا پھر کون؟ آپ نے فرمایا:’’تمہاری ماں۔ ‘‘اس نے پھر پوچھا: پھر کون؟ آپ نے فرمایا:’’تمہاری ماں۔ ‘‘اس نے کہا: پھر کون؟ آپ نے جواب میں