کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 39
مِنْ سُوْءِ مَا بُشِّرَ بِهٖ اَيُمْسِكُهٗ عَلٰي هُوْنٍ اَمْ يَدُسُّهٗ فِي التُّرَابِ اَلَا سَاءَ مَا يَحْكُمُوْنَ ﴾ ’’جب ان میں سے کسی کولڑکی کی نوید سنائی جاتی ہے تو اس کاچہرہ(مارے غم اور افسوس کے) سیاہ ہوجاتا ہے اور دل میں وہ گھٹ رہاہوتا ہے وہ اس خبر کو براسمجھتے ہوئے لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے او ر سوچتا ہے کہ اس ذلت کو برداشت کرے یا اس کومٹی میں دبا دے‘‘(النحل:16: 58، 59) اسلام نے ان کے اس رویے کی سخت مذمت کی اور بچیوں کو اس طرح زندہ درگور کرنے سے یہ کہہ کر منع فرمایا کہ اگر کسی نے اس فعل شنیع کا ارتکاب کیا تو اس سے بارگاہ الٰہی میں باز پرس ہوگی۔ ﴿وَاِذَا الْمَوْءٗدَةُ سُىِٕلَتْ Oبِاَيِّ ذَنْبٍ قُتِلَتْ﴾ [التکویر:8۔ 9] ’’او رجب زندہ درگور کردہ لڑکی سے پوچھاجائےگا کہ وہ کس جرم میں قتل کی گئی۔ ‘‘ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی لڑکے کےمقابلے میں لڑکی کو حقیر سمجھنے اور اسے زندہ درگور کرنے کی مذمت بیان فرمائی اور بچیوں کی پرورش اور ان کی تعلیم وتربیت کے فضائل بیان فرمائے۔ فرمایا: ((مَنْ كَانَتْ لَهُ أُنْثَى فَلَمْ يَئِدْهَا، وَلَمْ يُھِنْھَا، وَلَمْ يُؤْثِرْ وَلَدَهُ عَلَيْھَا، قَالَ: يَعْنِي الذُّكُورَ۔ أَدْخَلَهُ اللَّهُ الْجَنَّةَ )) ’’جس کے ہاں لڑکی ہوئی اس نے اسے زندہ درگور کیا نہ اسے حقیر سمجھا اور نہ لڑکے کو اس پر ترجیح دی تو اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل فرمائے گا۔ ‘‘ [1]
[1] سنن أبی داؤد:الأدب، باب فضل من عال یتامی، حدیث:5146اسنادہ ضعیف، ضعفہ الألبانی وعلیزئی