کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 37
’’عورتیں مردوں ہی کی شقیقہ (ہم جنس) ہیں ‘‘[1]
’’شقیقہ‘‘ کا مطلب ہے’’پیدائش‘‘ اور طبیعت میں یکساں ہونا۔ چنانچہ امام خطابی لکھتے ہیں :
’’(اس حدیث سے مراد کہ)عورتیں پیدا ئش اور طبعی اوصاف میں مَردوں ہی کی طرح ہیں، گویا کہ وہ مردوں ہی سے نکلی ہوئی ہیں۔ ‘‘ [2]
یوں اسلام نےعورت کے بارے میں اس تصور کو کہ عورت مرد کے مقابلے میں ذلیل وحقیر مخلوق ہے، باطل قرار دیا اور واضح الفاظ میں صراحت کردی کہ تکریمِ آدمیت اور شرف انسانیت کے لحاظ سے مرد وعورت میں فرق روا نہیں رکھنا چاہیے۔
2۔ اسی بنیاد پر، ا سلام میں وجہ فضیلت اور وجہ ذلت یہ نہیں ہے کہ فلاں مرد ہے، اس لیے افضل ہے اور فلاں عورت ہے، اس لیے ذلیل ہے بلکہ شرف وفضل کا معیار ایمان وتقویٰ ہے۔ فرمایا:
﴿ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللہِ اَتْقٰىكُمْ﴾
’’اللہ کے نزدیک تم میں سب سے معزز وہ ہےجو تم میں سب سے زیادہ متقی اور پرہیزگار ہے۔ ‘‘(الحجرات13:49)
اس نکتے کو قرآن کریم نے دوسری جگہ کھول کر بیان فرمایا:
﴿مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهٗ حَيٰوةً طَيِّبَةً وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ اَجْرَهُمْ بِاَحْسَنِ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ ﴾
’’جس کسی نے بھی، چاہے وہ مرد ہو یاعورت، عمل صالح کیا درآں حالیکہ وہ مومن ہے تو ہم اس کوپاکیزہ زندگی عطا کریں گے اور ان کے بہترین عملوں کا انہیں ضرور
[1] سنن أبی داؤد:الطھارۃ، باب فی الرجل یجد البلۃ فی منامہ، حدیث:236
[2] معالم السنن:(1؍ 162)