کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 358
اے دخترِ اسلام مظفر وارثی لگتی ہے کل کتنی بھلی شاخ چمن پر ہاتھوں میں پہنچ کر کوئی قیمت نہیں رہتی جو شمع سرِعام لٹاتی ہے اجالے اس شمع کی گھر میں کوئی عزت نہیں رہتی تسلیم کہ پردہ ہوا کرتا ہے نظر کا نظروں میں بھی برداشت کی قوت نہیں رہتی مردوں کے اگر شانہ بشانہ رہے عورت کچھ اور ہی بن جاتی ہے عورت نہیں رہتی جھانک اپنے گریباں میں کیا ہو گیا تجھ کو حیرت سے تجھے تکتا ہے آئینہ ایام اے دخترِ اسلام خود اپنی جڑوں پر ہی چلاتی ہے درانتی بربادی احساس نمو مانگ رہی ہے