کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 355
مانگتے ہو۔ بھول جایئے اب میں بڑی ہوگئی ہوں۔ تمام برتن بھی اس کی بیگم نے خود سمیٹے اور خود ہی اکیلے دھوئے۔ البتہ میرا دوست کبھی اس کی مدد کرتا رہا۔ پانی بھی اس نے خود جاکر پیا۔ یہاں معلوم ہوا کہ ہر شخص اپناکام خود کرتا ہے۔ میاں بیوی مل کر اپنے اپنے حصےکا کام خود کرتے ہیں۔ صرف ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔ شام ہوئی تو لڑکے نے لڑکی طرف دیکھا، لڑکی اٹھلاتی ہوئی اٹھی، ماں کو ایک تھیلا پکڑایا اور وِ ش کیا، باپ کی طرف ہاتھ ہلاتے ہوئے مجھ سے بھی جانے کےلیے ہاتھ ملا کر دروازے کی طرف بڑھ گئی۔ یہ میری زندگی میں مدرز ڈےکی پہلی یادگار واردات ہوئی جو میں تعجب اور افسوس کے ساتھ غیر مسلموں کے درمیاں دیکھ رہا تھااور ساتھ ساتھ سوچ رہا تھا کہ کم از کم ہم تواپنے والدین کو ہی سب کچھ سمجھتے ہیں۔ لیکن ہم بھی آہستہ آہستہ امیری کے ساتھ ساتھ روشن خیالی کی طرف گامزن ہوتے گئے۔ اپنے پرائےاور پھر آہستہ آہستہ پرائے اپنے لگنے لگے۔ یہ سلسلہ اب کہاں تک جائے گا۔ راستہ ہم نے تو دیکھ لیا ہے، خیال اور کتنے روشن ہوں گےوہ اب ہمارے میڈیا اور معاشرے پر منحصر ہےاور جب وہ مجھےمیرے ہوٹل چھوڑ کر واپس جارہا تھا تو میں نے پوچھا کہ تم اپنے ماں باپ کے ساتھ مدرز ڈے اور فادر ز ڈے مناتے ہو، اس نے کہا کہ ہاں مناتے تھے۔ مگر اب ایسا نہیں ہے کیونکہ وہ اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔ تب میں نے اس سے کہا کہ ہمارے والدین ہمارے ساتھ ہی رہتے ہیں اور ہر روز ہی ہمارے ماں باپ کے دن ہیں۔ اس نےکہاکہ تم خوش قسمت انسان ہو، اس خاندانی سلسلےکو منقطع نہیں کرنا ورنہ ہر سال ہماری طرح بچوں کے بغیر زندہ رہوگے‘‘[1] (خلیل احمد نینی تال والا)
[1] روزنامہ’’جنگ‘‘، 15 مئی 2016ء ص:9۔