کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 354
ہمارے یہاں علیحدگیاں کوئی پیچیدہ نہیں ہوتیں کیونکہ طلا ق کی صورت میں بھی لڑکیاں گھاٹے میں نہیں رہتیں۔ شوہر کی تمام جائیداد کا آدھا حصہ ان کومل جاتا ہے۔ بچے کے بالغ ہونے تک اخراجات شوہر کو ادا کرنے پڑتےہیں۔ علاج معالجہ ضروری تعلیم حکومت کے ذمہ ہوتا ہے۔ گھر نہ ہونے کی صورت میں حکومت گھر بھی دیتی ہے۔ اور بے روزگاری الاؤنس بھی اس کی ذمہ داری ہے۔ آخر وہ ہم سے40 فیصد سے زیادہ ٹیکس کس لیے وصول کرتی ہے، حکومت کا کام ہی یہی ہے۔ ابھی یہ باتیں ہورہی تھیں کہ دروازہ کھلاتو ایک خوبصورت لڑکی اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ گھر میں داخل ہوئی اور باپ کو نظر انداز کرتی ہوئی پہلے کچن میں ماں سے ہیلو ہائے کیا، اپنے نئےبوائے فرینڈ سے ملوایا، پھر پلٹ کر ڈرائینگ روم کی طرف آئی باپ سے ہیلو ہائے کی۔ باپ نے اس کو مجھ سے ملوایا، اس نے مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھایا، میں جھجکا، کیونکہ ہمارے ملک میں اس وقت تک ایسا رواج نہیں تھا۔ آہستہ سے ہاتھ بڑھا کرملایا، یہ میرا غیر خاتون کے ساتھ پہلا مصافحہ تھا۔ باپ لڑکے سے پوچھ رہاتھاکہ وہ اس کی بیٹی کے ساتھ کتنا مخلص ہے اور وہ کیا کرتا ہےاور آئندہ کا کیا پروگرام رکھتا ہے۔ وہ اس لڑکی کے لیے کندھے اچکاا چکا کرہاں ہوں کرتا رہا، پھر کھانا بھی ماں سےخود لگوایا۔ میرے دوست نے اٹھ کر بیگم کی مدد کی، مگر نہ لڑکا، نہ لڑکی نے کوئی مدد کی۔ جس کا مجھے بہت برا لگا۔
الغرض ہم کھانا کھاکر واپس ڈرائنگ روم میں آگئے، چائے اور کافی کا دور چلتا رہا۔ سہ پہر میرے دوست نے اپنی بیٹی سے پانی مانگا تو مجھے تعجب کی انتہا ہوئی کہ جب لڑکی نے منہ بناکر کہا ڈیڈی تم ابھی تک کاہلوں کی طرح اپنا پانی خود لانے کے بجائے مجھ سے ہی