کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 353
سال بغیر شادی کے ساتھ رہتے ہیں اگر دونوں کا مزاج مل جائے تو پھر رضامندی سے شادی کرلیتے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہو تو علیحدگی ہوجاتی ہےاور پھر نئے پارٹنر کی تلاش کرتے ہیں۔ اس دوران کوشش کرتے ہیں کہ کوئی بچہ وغیرہ نہ ہو۔ میں نے سوال کیا کہ اگر ہوجائے تو بولا کوئی بات نہیں یہاں والدین کے خانے میں صرف ماں کا نام ہوتا ہےتو بچہ ماں کے نام سے پہچاناجائےگا، جس کی قانونی حیثیت ہوتی ہے۔ اب اس نے جواب میں مجھ سے سوال کرنا شروع کردیئے۔ وہ پاکستانی معاشرے سے ناواقف تھا۔ کہنے لگا تم لوگ مدرذ ڈے، فادرذ ڈے کس طرح مناتے ہو۔ اس وقت تک ہمارے ملک میں نہ شدت پسند تھے، نہ روشن خیال ہوتے تھے۔ سیدھے سادھے مسلمان ہوتے تھے۔ میں نے کہا ہم توروز مدرز ڈے اور فادرز ڈے مناتے ہیں، وہ بولا کیسے؟میں نے سادگی سے کہا کہ وہ ہمارے ساتھ اور ہم ان کے ساتھ رہتے ہیں۔ بولا آپ لوگ بور نہیں ہوجاتے، ، میں نے کہا کہ کیسی بوریت یہ تو ہمارےلیے نعمت ہوتے ہیں۔ اگر ہم غلطی کریں گے تو وہ ہمیں صحیح راہ دکھاتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ وہ بولا پھر تم لوگ اپنی شادی کے لیے پارٹنر کیسے تلاش کرتے ہو۔ میں نے کہااکثر ان ہی کی پسند ہماری پسند سمجھی جاتی ہے۔ البتہ وہ چناؤ کرتے وقت ہماری مرضی ضرور پوچھتے ہیں۔ وہ بولا ایسی بلائنڈشادیاں ناکام ہوجاتی ہے۔ میں نے کہاکہ 2 تہائی سے زیادہ کامیاب ہوتی ہیں۔ اس نے تعجب سے میری طرف دیکھااور بولا یہ کیسے ممکن ہے۔ ہمارے میں تو 2تہائی شادیاں اپنی پسند سے ہونے کےباوجود یکطرفہ یا دو طرفہ ناکامی کا شکار ہوتی ہیں۔ بمشکل 8 سے 10 فیصد شادی شدہ جوڑے آخری وقت تک نبھاتے ہیں۔ مگر