کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 352
مغربی معاشرے کی ایک جھلک پہلا مدرز ڈے خلیل احمدنینی تال کا کالم ’’روایتی طور پرماؤں کا دن ہرسال کی طرح اس سال بھی پوری دنیا میں منایا گیا۔ میں 1970ء میں پہلی مرتبہ لندن گیا تھا تو میرے کاروباری انگریز دوست نے مجھے دوپہر کے کھانے پر مدعو کیا۔ وہ دوپہرمیں مجھے ہوٹل سے لےکر اپنے گھر کی طرف روانہ ہوا تو کہنے لگا کہ آج ہمارے لیےخوش قسمت دن ہے۔ میں نے پوچھا:کیا خاص بات ہےآج کے دن کو؟تو بولا کہ آج مدرز ڈے ہے۔ میں اس دن سے قطعی ناواقف تھا، پوچھا وہ کیا ہوتا ہے؟وہ بولا کہ آج کےدن ہر ماں اپنے بالغ بچوں سے ملنےکےلیے بےچین رہتی ہے اس کے بچے اس کے گھر آ کر تحفہ تحائف دیتے ہیں۔ ماں اس دن بچوں کےلیے کھانا پکاتی ہےاور ہرسال کی طرح کھانے پر گپ شپ ہوتی ہے، سارا دن اس میں گزر جاتا ہے۔ تو چونکہ میری ایک ہی بیٹی ہے وہ آج دوپہر ہمارے درمیان ہوگی اور اس کی طرح تم بھی مل لوگےاور ہمارا ویک اینڈ بہت اچھا گزرے گا۔ گھر پہنچا توا س کی بیگم کچن میں طرح طرح کے کھانےبنانے میں مصروف تھی رسمی ہائے ہیلو ہوئی اور ہم دونوں ڈرائینگ روم میں بیٹھ گئے۔ میں نے اس کو کریدا کہ اس کی بیٹی شادی شدہ ہے۔ کہا:نہیں وہ بالغ ہے، 20سال کی ہے، اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ ہی رہتی ہے۔ بے ساختہ میری منہ سے نکلا:’’بغیر شادی کے‘‘وہ بولا ہاں اس میں کون سی نئی بات ہے، یہ ہمارےمعاشرے کا حصہ ہے۔ ہم پہلےایک دوسرے کوجاننے کے لیے کئی کئی