کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 351
شرمندگی سے بچنے کے لئے یا بہت زیادہ جذباتی مشکل بھی شامل تھی۔ یا یہ کہ ان کے خیال میں اس سلسلے میں کچھ بھی نہیں ہوگا۔ دس میں 6 طلبہ (63.3فیصد) کا خیال تھا کہ جنسی حملے یا جنسی برے طرز عمل کا یونیورسٹی کیمپس کے حکام سنجیدگی سے نوٹس لیں گے۔
حرف آخر:
پاکستانی عورت مسلمان ہے، یہاں کامعاشرہ مسلمانوں پرمشتمل ہے، پاکستانی ریاست کاسرکاری مذہب بھی اسلام ہے۔ ان تمام باتوں کاتقاضا ہےکہ پاکستانی عورت کے بہ حیثیت مسلمان، جوحقوق ہیں، وہ اسے اس کے مذہب اسلام کی روسے ملنے چاہئیں اور حکومت کابھی فرض یہ ہے کہ وہ اسلام کی روشنی میں ان کے حقوق کا تحفظ کرے۔ اس اسے انحراف پاکستانی عورت کی بھی حق تلفی بلکہ اس پرظلم ہے اور حکومت بھی اپنے حلف سے انحراف کی مجرم ہوگی۔ وماعلینا الاالبلاغ
نوٹ:
زیرِ بحث بل کے خالقین اور اس کے پسِ پردہ مخفی ہاتھ پاکستان کے مسلمان معاشرے کو جس مغربی معاشرے میں ڈھالنا چاہتے ہیں اس کی ایک جھلک آئندہ صفحے پر بعنوان ’’ مدرز ڈے ‘‘ ایک اخباری کالم ملاحظہ فرمائیں۔ پھر پاکستانی مسلمان فیصلہ کریں کہ ان کو وہ معاشرہ چاہئے جو اسلامی اخلاق واقدار کا حامل ہو جس کے داعی علماء ہیں یا وہ مغربی معاشرہ چاہتے ہیں جس کی ایک بھونڈی اور مذموم کوشش تحفظ نسواں بل کے ذریعے سے کی گئی ہے۔