کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 350
سنائی دی۔ جنسی ہراساں کرنا، حملہ کرنا یا برا طرز عمل ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے جو مختلف شدت کے ساتھ تمام کمیونٹیز میں پایا جاتاہے۔ پاکستان کو بھی ایسے ہی مسائل کا سامنا ہے مگر ایسے سروے اور ریسرچ منعقد کرنے کے طریقہ کار کی غیر موجودگی میں اس مسئلے کی شدت کا اندازہ نہیں۔ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور مختلف سکولوں اور مدرسوں میں لڑکوں کے ساتھ ہونے والے واقعات باربار رپورٹ کئے جاتے ہیں مگر یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتوں کی طرف سے اس ایشو پر بے حسی کے سبب اس مسئلے کی اصل سنگینی اور اس کی سطح کا کچھ پتہ نہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ اس سنگین مسئلے کے حل کے لئے بھی حکومت نے ٹھوس اقدامات نہیں کئے۔ اے اے یو سروے میں امریکی یونیورسٹیوں میں جبری جنسی حملوں اور جنسی برے طرز عمل پر مبنی سروے سے قطع نظر، یہ بات قابل ستائش ہے کہ کم ازکم وہاں اس پر تشویش تو پائی جاتی ہے اور اس مسئلے کے حل کے لئے اقدامات بھی کئے جا رہے ہیں۔ سروے میں مجموعی طور پر 11.7 فیصد طلبہ نے بتایاکہ انہیں جبری طور پر جنسی حملے کے تجربے سے گزرنا پڑا جن میں جسمانی قوت یا جسمانی قوت کی دھمکیاں دی گئیں یا وہ بے بس ہوگئے۔ ان میں 23.1 طالبات بشمول 10.8 فیصد جنسی زیادتی کے عمل سے گزرنے والی طالبات شامل ہیں۔ ان حملوں میں یونیورسٹیوں کے حکام، قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں یا دیگر اداروں میں رپورٹ کرنے والوں کی شرح کم ہے جو5 سے 28فیصد کے درمیان ہے، کا انحصار حملے کی خاص نوعیت پر تھا۔ سروے کے مطابق جنسی حملے یا جنسی برے طرز عمل کے واقعہ کی رپورٹ نہ کرانے کی سب سےعام وجہ اس پر سنجیدگی سے مناسب توجہ نہ دینا ہے۔ دیگر وجوہات میں پریشانی اور