کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 345
گئی ہے کہ میاں بیوی کے درمیان کسی طرح بھی غلط فہمیاں دور نہ ہوں اور دوبارہ جڑنے کی کوئی صورت نہ رہے۔ ٭ فیملی عدالتوں کو مزید فعّال اور ان کو ایک معین مدت تک فیصلے کرنےکاپابند بنایا جائے۔ تاکہ جوعائلی تنازعات، پنچائتوں کے ذریعے سے حل نہ ہوسکیں، عدالتوں سےان کو فوری ریلیف مل جائے۔ جیسے خلع، طلاق کے بعد بچوں کی تحویل، نان ونفقہ، وراثت وغیرہ کے مسائل ہیں۔ ٭ اگرحکومت پنچائتی نظام کو صحیح معنوں میں قائم کردے اور ان کومناسب اختیارات بھی دے دیے جائیں تو یہ سارے مسائل محلوں کی سطح پر، عدالتوں کی طرف رجوع کیے بغیر ہی، حل ہوسکتے ہیں۔ مسئلہ صرف اخلاص اور عزم وہمت اور قرآن سے رہنمائی حاصل کرنے کا ہے۔ اور اگرمغرب ہی کی نقالی یا ان کی خوشنودی یا ان سے فنڈ لینا مقصود ہے تو پھر بات اور ہے۔ لیکن نہ نقالی سے عورت کے مسائل حل ہوں گے اور نہ فنڈز کے حصول سے۔ عورت کی مشکلات جوں کی توں رہیں گی بلکہ علم نجوم میں مہارت کے بغیر یہ پیش گوئی کی جاسکتی ہےکہ ان میں اضافہ ہی ہوگا۔ گوہماری خواہش اور دعاتو یہی ہے کہ ایسا نہ ہو لیکن غلط طریق کار کے غلط نتائج کومحض آرزؤں اور تمناؤں سے نہیں روکاجاسکتا۔ ٭ جہیز کی لعنت کا نہایت سختی سے خاتمہ کیاجائے، اب تک کی بعض نیم دلانہ کوششوں سے اس رسم بد کے خاتمے میں کوئی مدد نہیں مل سکی۔ ضرورت ہے کہ اس محاذ پر بھی حکومت سنجیدگی سےکوشش کرے۔ اس لعنت کی وجہ سے بھی بہت سی عورتوں کو متعدد مشکلات کا سامنا کرناپڑتا ہے۔ ٭ عورت کی وراثت کا مسئلہ ہے۔ اس کے لئے ایسی قانون سازی کی جائے کہ کسی کو بھی عورت کو باپ کی جائیداد سےمحروم کرنے یامحروم رکھنےکی جرأت نہ ہو۔ اگر اس قسم