کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 342
سکتے ہیں۔ اور یہ بھی ایسا مسئلہ ہے جو اتفاقی ہے۔ اس میں کسی کااختلاف نہیں ہے۔ فقہی اختلاف اس وقت سامنے آتا ہے جب طلاق کاغیر شرعی طریقہ۔ ایک ہی مرتبہ تین طلاقیں۔ اختیار کیاجاتاہے۔ اور اس اختلاف کی وجہ سے ان کا دوبارہ باہم ملاپ تقریبا ناممکن ہوجاتا ہے الا یہ کہ وہ حلالہ مروجہ کیاجائے جس کابعض علماء فتویٰ دے دیتے ہیں، حالانکہ اسلام میں اس کاقطعاً کوئی جواز نہیں ہے۔ علاوہ ازیں کوئی غیرت مند مرد اسے برداشت نہیں کرسکتا۔ علاوہ ازیں یہ خودساختہ فتویٰ جس طرح نقل(شرعی دلائل) کے خلاف ہے، اسی طرح عقل کےبھی خلاف ہے کہ جرم کرنے (بیک وقت دین طلاقیں دینے )والا مرد ہوتا ہے لیکن سزا عورت کو بھگتنی پڑتی ہے کہ وہ چند راتوں کے لئے کرائے کے سانڈ کے حوالے کردی جاتی ہے۔ اعاذنا اللّٰہ منہ۔ یاد رہے کہ ’’کرائے کے سانڈ‘‘ کے الفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمائے ہوئےہیں۔ حدیث کے اصل عربی الفاظ ہیں :’’التیس المستعار‘‘ 5۔ یا اس کادوسراحل، جوشرعی ہے، یہ ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک ہی طلاق (رجعی) شمار کیاجائے، اس صورت میں بھی پھر عدت کے اندررجوع کرنا اور عدت گزرجانے کے بعد(بغیرحلالہ مروجہ کے) نکاح کرنا جائز ہے۔ اس کےاہل حدیث کے علاوہ کئی ائمہ اعلام(امام ابن تیمیہ، امام ابن قیم وغیرہ) اور بعض صحابہ وتابعین اور دیگر متعدد اہل علم قائل ہیں۔ شرعی دلائل بھی اس کی تائید میں موجود ہیں۔ علاوہ ازیں پاک وہند کے متعدد علمائے احناف(دیوبندی وبریلوی) حالات کے پیش نظر اس کے قائل ہیں، جس کی تفصیل اور ان کے فتاوے اورمضامین راقم کی کتاب میں موجود ہیں، یہ کتاب ’’ایک مجلس کی تین طلاقیں اور اس کاشرعی حل‘‘ کے نام سے مطبوع ہے۔