کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 341
اور بدا خلاقی کانتیجہ ہوتے ہیں۔ حکومت میاں بیوی کے حقوق اور ذمےداریوں پرمبنی اسلامی تعلیمات کومیٹرک کے بعد نصاب کاحصہ بنائے اوراخبارات اورٹی وی پروگرامزکے ذریعےسے بھی ان کونشر کروائے۔ 2۔ بالخصوص اسلامی طریقۂ طلاق کو، جس کی وضاحت، گزشتہ صفحات میں کی گئی ہے، زیادہ سے زیادہ اس کی نشرواشاعت کی جائے اور اسے نصاب تعلیم میں شامل کیاجائے۔ 3۔ ایک ہی مرتبہ تین طلاقوں کو جرم قرار دیاجائے، جو عرضی نویس یاوکیل طلاق نامہ لکھے، ان کوبھی صرف ایک طلاق لکھنے کا پابند اور ان کے لئے بھی بیک وقت تین طلاقیں لکھنے کو قابل تعزیر جرم قرار دیا جائے۔ یہ سفارش اسلامی نظریاتی کونسل بھی کرچکی ہے۔ 4۔ اس غلط فہمی کا وسیع پیمانے پر ازالہ کیا جائے کہ طلاق کے لئے تین مرتبہ۔ طلاق، طلاق، طلاق۔ کہنا یامیں۔ طلاق دیتا ہوں، طلاق دیتا ہوں، طلاق دیتا ہوں۔ کہنا ضروری نہیں ہے بلکہ اگر کوئی صرف یہ کہتا ہے کہ میں طلاق دیتا ہوں، یاتجھے طلاق ہے۔ تو اس طرح ایک مرتبہ ہی طلاق کے لفظ سے طلاق ہوجاتی ہے اور تین حیض یاتین مہینے تک رجوع نہ کرنے کی صورت میں طلاق بائنہ ہوجاتی ہے۔ یعنی میاں بیوی والاتعلق ختم ہوجاتا ہے، اس کے بعد عورت آزاد ہے کہ اپنےولی کی اجازت اوررضامندی سےجہاں چاہے نکاح کرے۔ یہ طلاق کا وہ شرعی طریقہ ہے جس میں کسی کااختلاف نہیں۔ اس کاسب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ طلاق دینے کے بعد اگر مرد کو اپنی غلطی کااحساس ہوجائے تو وہ عدت کے اندر رجوع کرکے دوبارہ اس کو اپنے ساتھ رکھ سکتا ہے۔ اور عدت گزرنے کےبعد اگرصلح کی کوششیں کامیاب ہوجاتی ہیں تو نئے نکاح کےذریعے سے یہ دوبارہ تعلق زوجیت میں جڑ