کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 340
ہے، لیکن مغرب میں یہ واقعی ایسا جرم ہے کہ بیٹی یا بیوی فون کے ذریعے سےپولیس کو بلواکر باپ یاشوہر کو گھر سے نکلواکر جیل بھجواسکتی ہے۔ بات پھر بل کی طرف چلی گئی کیونکہ بل ایسی کشش ثقل کاحامل ہے کہ فیصل آباد کے گھنٹہ گھر کی طرح، جدہر دیکھو تو ہی تو ہے، والامعاملہ ہے۔ بات تربیتی فقدان، اسلامی تعلیمات کے عدم شعور اوراخلاق سے محرومی کی ہورہی تھی، اس کی عامۃ الورودمثال طلاق کی ہے۔ بلاشبہ بہت سے مرد جہالت کامظاہرہ کرتے ہوئے معمولی سے لڑائی جھگڑے پر طلاق دےدیتے ہیں اور طلاق بھی ایک ہی سانس میں تین مرتبہ۔ جن سے علمائے احناف کےنزدیک طلاق بتہ ہوجاتی ہے اور گھراجڑجاتا ہے، میاں بیوی کے خوار ہونے کے علاوہ بچوں کا مستقبل بھی تاریک ہوجاتا ہے۔ لیکن یہ سمجھنا خلاف واقعہ ہے کہ اس جہالت اورحماقت کامظاہرہ صرف مرد ہی کی طرف سے ہوتا ہے بلکہ بعض دفعہ بلکہ بسا اوقات اس میں عورت کی بدزبانی اور بداخلاقی اور ناسمجھی کادخل ہوتا ہے اور وہ ذرا سی بات پر طلاق کامطالبہ کرتی ہے۔ مردٹالنے اور درگزر کرنےکی بات کرتا ہے۔ لیکن وہ ناسمجھی میں اتنا اصرار کرتی ہے کہ مرد کو، نہ چاہتے ہوئے بھی، طلاق دینی پڑ جاتی ہے۔ اور پھر وہ ایک مرتبہ تین طلاقیں۔ اس صورت حال کاحل کئی اقدامات کامتقاضی ہے۔ 1۔ حکومت کی طرف سے اسلامی تعلیم وتربیت کا سرے سے کوئی اہتمام ہی نہیں ہے۔ نہ مردوں کے لئے اور نہ عورتوں کے لئے۔ تعلیم وتربیت انسان کوحوصلہ مند بناتی اور عزم وحوصلہ کے ساتھ مسائل ومشکلات کاسامنا کرنا سکھاتی ہے، بالخصوص جلد بازی میں فیصلہ کرنے سے روکتی ہے۔ اور طلاق کے فیصلے اکثرعجلت، بےصبری، عدم برداشت