کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 333
فرمائی۔ لیکن اس کاطریقہ یہ بتلایا کہ اگر نباہ کی کوئی صورت نہ بنے تو پھر عورت کے پاک ہونے کاانتظار کرو۔ اس طرح حالتِ طہر میں اس سے صحبت کئے بغیر صرف ایک طلاق دو۔ ایک ہی وقت میں تین طلاقوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتاب اللہ کے ساتھ کھلواڑ کرنا قرار دیا اور اس پر سخت برہمی کااظہارفرمایا۔ اس طریقۂ طلاق میں بڑی حکمت ہے۔ زیادہ طلاقیں جہالت کے علاوہ غصے اور اشتعال میں دی جاتی ہیں۔ اگر فوری طلاق نہ دی جائے بلکہ حیض سے پاک ہونے پر حالت طہر میں بغیر جنسی تعلق قائم کیے طلاق دینے کے وقت کاانتظار کیا جائے۔ توپچاس فی صد طلاق کے واقعات ویسے ہی کم ہوجائیں گے۔ کیونکہ طہر کے انتظار تک غصہ اور اشتعال ختم ہوجاتا ہے اورطلاق دینے کی نوبت ہی نہیں آتی۔ تیسراحکم یہ دیا کہ پہلی طلاق دینے کے بعد، اسی طرح دوسری مرتبہ طلاق دینے کے بعد، طلاق کی عدت تین حیض یاتین مہینےہیں، عدت کے ان ایام میں پہلی اور دوسری طلاق میں عورت کو گھرسے نہیں نکالنا۔ (سورۃ الطلاق) بلکہ وہ عدت، طلاق یافتہ ہونے کے باوجود بھی، خاوند کے گھر ہی میں گزارے۔ اس کی حکمت یہ بتلائی گئی ہے کہ شاید خاوند کو اپنی غلطی کا احساس ہوجائے، بیوی کے گھر ہی میں ہونے کی وجہ سے بیوی کی محبت اسے دوبارہ ملاپ پر مجبور کرے یابچوں کے بے سہارا ہونے کااحساس اس کو اپنے فیصلے پرنظرثانی کرنے پر مجبور کردے، یا بیوی کی بے چارگی کااحساس اس کے اندر رحم وشفقت کا جذبہ بیدار کرے اور وہ رجوع کرنے پر آمادہ ہوجائے۔ ایسی صورتوں میں پہلی اور دوسری طلاق میں خاوند کو عدت کے اندررجوع کرنے کاحق حاصل ہے اور یہ مرد کا ایسا حق ہے کہ عورت یا عورت کے گھر والوں کو انکار کرنے