کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 330
دے کر دوسرے پر حملہ آور ہونےکا اختیار دے گا تودوسرا بھی محب کے بجائے دشمن بن جائے گا اور اس کے ہاتھ میں خدائی اختیار۔ حق طلاق۔ ہے۔ وہ عورت کے وار کرنے سے پہلے ہی اپنا وار کرکے اس کاکام تمام کردے گا، یعنی اس کو طلاق دے دے گا اور پولیس جوہتھکڑی یاکڑا مرد کو لگانے یا پہنانے کے لئے آئے گی، مرداس کو کہے گا اس عورت کو شیلٹرہوم میں پہنچادو، اس سے میرا اب کوئی تعلق نہیں ہے، میں نے اس کو طلاق دے کر اپنی زوجیت ہی سے خارج کردیا ہے۔ یہ محض افسانہ سازی یا افسانہ سرائی نہیں ہے، یہ مستقبل کا وہ نقشہ ہے جو اس بل کے نفاذ کے بعد سامنے آئے گا۔ اور فرض کرلو کہ کوئی مرد اس بے غیرتی کو برداشت کرتےہوئے اپنےآپ کو حوالۂ پولیس کرکے چند روز کے بعد گھر سے بے گھر ہونا گواراکرے گا تو اس کے پیچھے دوصورتیں ہوں گی۔ اس گھر میں اس کی بیوی کے ساتھ، مرد کی ماں، اس کی بیٹیاں، بھابھیاں وغیرہ بھی رہائش پذیر ہوں گی توماں سمیت ان عورتوں پر کیاگزرے گی، اور ان عورتوں کے دلوں میں اس خاتون کی کیاعزت باقی رہ جائے گی جس نے اپنے سر کے تاج کو پس دیوار زنداں دھکیل دیا؟ دوسری صورت، کہ اس گھر میں صرف میاں بیوی ہی رہنے والے ہوں گے، مرد کے گھر سے نکل جانے کے بعد اکیلی عورت کیا محفوظ ہوگی؟ اور اگرعورت بدکردار ہوگی تو اس تنہائی کو کیا وہ اسی طرح ’’یوز‘‘نہیں کرے گی جس طرح مغربی عورت کرتی ہے۔ یہ صورت تو یقیناً اس بل کے خالقوں کےنزدیک ’’آئیڈیل‘‘ ہوگی کہ مسلمان عورت کوپاکستان میں