کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 329
وتشدد سے تعبیر کرنا ہر لحاظ سے غلط بھی ہے اور خلاف واقعہ بھی۔ یہ وہ تشدد ہرگز نہیں جس کے لئے اتنی لمبی چوڑی قانون سازی کی گئی ہے یہ بلاجواز اور حکم قرآنی کے یکسر خلاف ہے۔
3۔ اللہ تعالیٰ نے میاں بیوی کے باہمی تعلق، ان کے مابین محبت وقربت اور ان کی پرائیویسی کو﴿ھُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَاَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّہُنَّ ﴾ [البقرۃ:187] کے نہایت بلیغ الفاظ سے تعبیر فرمایا ہے کہ ’’وہ عورتیں تمہارے لئے لباس ہیں اور تم ان کے لئے لباس ہو‘‘ اس کاصاف مطلب یہ ہے کہ یہ خانگی معاملات اور باہمی تنازعات، یہ ایسے معاملات نہیں ہیں کہ ان میں سوائے ناگزیر حالات کےکسی اورکو دخل دینے کی ضرورت ہو۔ وہ لباس کی طرح ایک دوسرے سے جڑے ہوئے، دوسرے تمام لوگوں سے بے نیاز ہیں۔
ان خانگی معاملات کو، جرائم بناکر، پولیس کو ان میں مداخلت کاحق دینا، یاعورت کو یہ اختیار دینا کہ وہ فون کرکے مرد کو حوالۂ پولیس کردے۔ یہ قرآن کے مذکورہ پرائیویسی کے حکم کےبھی خلاف ہے اور یہ ایسی غیردانش مندانہ تدبیر ہے کہ جو عورت بھی ایسا کرے گی وہ اپنے پیروں پر ہی کلہاڑی مارے گی۔ جب کوئی عورت مردکی بالادستی کو چیلنج کرے گی تو کوئی بھی مسلمان مرداتنا بے غیرت نہیں ہے وہ اس بےغیرتی کو برداشت کرلے۔ یہ صورت حال ایسی ہے جہاں بھی عورت کی حفاظت کے ٹھیکے دارں اورٹھیکے دارنیوں کی طرف سے بنائے ہوئے اس قانون کو کوئی عورت اختیار کرے گی تو مردآخر مرد ہے، وہ گھر کامالک ہے، عورت کاکفیل ہے، وہ اللہ کا بنایاہواگھرکاسربراہ ہے۔ وہ اس بے غیرتی اور بے بسی ولاچارگی کو کب برداشت کرے گا، وہ کڑاپہننےکےبجائے اپنا یہ لباس ہی اتارپھینکے گا، یعنی عورت ہی کو طلاق دےکرفارغ کردے گا یعنی جب ان کومُحب اور محبوب کے رشتے سے جدا کرکے ایک دوسرے کا دشمن قرار دے کر قانون ایک ہاتھ میں ہتھیار