کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 328
فطرت اور احکام الٰہی کے خلاف ہے، اس سے یقیناً گھرکانظام خلل اور فساد کا شکار ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے اس صورت میں بطور علاج تین تدبیر اختیار کرنے کاحکم دیا ہے۔ 1۔ عورت کو وعظ ونصیحت کےذریعے سے سمجھایاجائے۔ (یہ کارگرنہ ہوتو) 2۔ ان سے گھر کے اندربستر الگ کرلو(اس سے بھی وہ نہ سمجھے تو) 3۔ توا ن کی سرزنش کرو(ہلکی سےمار سے ان کوراہ راست پرلاؤ) (النساء:35) ﴿واضربوھن﴾ [مارو) یہ اللہ کاحکم ہے۔ کسی مفسر، عالم یا فقیہ کا اجتہاد یاتوضیح نہیں صاف اور واضح حکم ہے۔ لیکن اس کامطلب تشدد یاظلم ہرگز نہیں، نہ اس کی اجازت ہی ہےیہ اصلاح کے لئے ایک تادیبی حکم ہے اور تادیب وتنبیہ کاحق ہر سربراہ کو حاصل ہوتا ہے۔ لیکن اس تادیبی حکم کاتعلق چونکہ میاں بیوی سے ہے جن کےد رمیان فرمان رسول کی رُو سے ایسی مثالی محبت ہوتی ہے جس کی کوئی نظیر نہیں۔ اس لئے حامل قرآن اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ضرب (سرزنش) کی وضاحت فرمادی کہ یہ غیرمبرح ہو، یعنی ایسی مارکہ جس سے اس کو نہ ایذاء پہنچے اور نہ کوئی زخم ہو۔ اسی طرح چہرے سے اجتناب کیاجائے۔ علاوہ ازیں اس کی مزیدحوصلہ شکنی کرتے ہوئے فرمایا کہ تادیب کے طور پر بھی ایسا کرنے والے بہتر لوگ نہیں ہیں۔ مزیدفرمایا کہ یہ کون سی دانش مندی ہے کہ صبح کو مارے اور رات کو پھر اس کی آغوش محبت میں پناہ لے۔ چنانچہ یہ حقیقت ہےکہ شاید ہی چند فی صد گھرانے ایسے ہوں گے کہ جہاں عورت کو اس قسم کی سرزنش سے واسطہ پڑتا ہو۔ ورنہ الحمدللہ بیشتر گھرانوں میں اس کی نوبت نہیں آتی اور جہاں کہیں بھی اس کی نوبت آتی ہے تو اکثر وبیشتر اس کی وجہ عورت ہی کی بدزبانی، بداخلاقی یانافرمانی ہوتی ہے۔ تاہم اللہ تعالیٰ کے اس تادیبی حکم اوراجازت کو ظلم