کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 325
شنوائی نہیں ہوتی۔ شنوائی اگر ہوتی ہے تو اس رشوت کی جس کو’’فضل ربی‘‘ کا نام دیا ہوا ہے۔ (نعوذباللّٰہ من ذلک)
جب تک اس لقمۂ حرام سے ان کی مُٹھّی گرم نہیں کی جاتی، ان سے متعلقہ کام کروانے کا تصور ہی نہیں کیاجاسکتا۔ ان تمام سرکاری اداروں میں مردوں کو اپنے ہی ان’’خادموں ‘‘ کے ہاتھوں جس ذلت ورسوائی اور ظلم کا سامنا کرناپڑتا ہے اور عوام کے یہ ’’خادم‘‘ جس طرح ایک ایک مرحلے پر مردوں کی عزت نفس کومجروح کرتے ہیں، وہ محتاج وضاحت نہیں ہے۔ یہ تو مردوں کاحوصلہ ہے کہ وہ ظلم وتشدد کی ان صورتوں کو برداشت کررہےہیں کیونکہ وہ ان ظالموں کے سامنے بے بس ہیں اور حکومت بے حس ہے، ورنہ ان کی چیرہ دستیاں تو اتنی عام ہیں کہ خودکشی کرنے کو جی چاہتا ہے۔
کیاحکومت کومردوں کی یہ ذلت ورسوائی نظر نہیں آتی؟ سرکاری اہل کاروں کا یہ ظلم وتشدد اس کے علم میں نہیں ہے؟ کیا ریاست کی یہ ذمےداری نہیں ہے کہ وہ مردوں کے ان حقوق کاتحفظ کرے جن کو تمام سرکاری اداروں میں بیٹھے ہوئے فراعنہ نہایت بے دردی سے پامال کرتے ہیں ؟
عورتوں پر ظلم وتشدد کی صورتیں توقطعاً اتنی عام نہیں ہیں جتنا پروپیگنڈہ کے ذریعے سے باور کرایاجارہاہے لیکن اس کے سدباب کے لئے تو حکومت کی ’’پھرتیاں ‘‘ ایک ناقابل فہم معمہ ہے، ہاں ایک پہلو قابل فہم ہے کہ یہ مغربی ایجنڈا ہے۔ لیکن ملک سے رشوت کاخاتمہ ہو، کرپشن کا انسداد ہو، عوام کے مسائل کے حل کے لئے کوئی آسان میکنزم تیار ہو، سرکاری اہل کاروں کی لوٹ کھسوٹ کاخاتمہ ہو جس نے عوام کی زندگی اجیرن بنارکھی ہے۔ مغرب کو