کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 324
فریق کو ظالم باور کرکے یا کراکے یک طرفہ قانون سازی بجائے۔ خود ایک ظلم ہے جو آئین پاکستان کے بھی خلاف ہے، اسلام کے بھی خلاف ہے اور عدل وانصاف کی مسلمہ روایات کے بھی خلاف ہے۔ عدل، آئین اور اسلام کا تقاضا تو یہ ہے کہ جو واقعی ظالم ہیں، ان کو کٹہرے میں کھڑا کیا جائے نہ کہ اپنے طور پرکسی ایک فریق یاجنس کوظالم فرض کرکے اس کے خلاف قانون سازی کی جائے۔
ہمارے ملک میں کون سا طبقہ ایسا ہے جو ظلم وتشدد سے محفوظ ہے؟ عورتیں تو بالعموم پھر بھی گھروں میں رہتی ہیں، سارے بیرونی کام مرد ہی کرتےہیں۔ لیکن ہمارے ملک میں مردوں کو قدم قدم پرظلم کاسامنا کرناپڑتا ہے۔ جتنے بھی سرکاری ادارے ہیں جن سے رات دن عوام کو اسطہ پڑتا ہے، بجلی، سوئی گیس، ایل ڈی اے، واسا، انکم ٹیکس، پراپرٹی ٹیکس، کچہری، پٹوارخانہ، عدالتیں (سول، فیملی، دیوانی، فوجداری، حتی کہ ہائی کورٹس وغیرہ) سیکرٹریٹ میں سرکاری ادارے، پاسپورٹ آفس، نادراآفس اور دیگر اس قسم کے دیگر ادارے اور سرکاری دفاتر جہاں عوام کو اپنے مسائل ومشکلات کے حل کے لئے سرکاری اہل کاروں سے واسطہ پڑتا ہے۔ ان اداروں کے چھوٹے بڑے افسران واہل کار ان کی منصبی ذمے داری ہے کہ وہ پوری دیانت داری سےعوام سے تعاون کریں اور متعلقہ کام کرکے دیں، عوام کے خون پسینے کی کمائی ہی سے ان کو تنخواہیں اور دیگرمراعات دی جاتی ہیں۔ لیکن ہرچھوٹا بڑا افسراور اہل کار فرعون بن کر بیٹھا ہوا ہے اور کسی بھی دفتر میں عوام کی